اخبار ادب

330

ڈاکٹر نثار احمد نثار

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام سرائیکی زبان کے نامور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی یاد میں ’’خصوصی لیکچر‘‘ اور ’’محفل مشاعرہ‘‘ کا انعقاد اکادمی کے کراچی دفتر میں کیا گیا جس کی صدارت ممتاز صحافی، کالم نگار، دانشور، محمود شام نے کی، مہمان خصوصی نامور ادیب مسلم شمیم تھے۔ صدر محفل محمود شام نے خصوصی لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ غلام فرید کے بڑے بھائی خواجہ غلام فخر الدین نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم سے بھی بہرہ در کیا۔ خواجہ غلام فرید اپنے انہی برادر بزرگ کے مرید ہوئے اور عبادات اور ریاضتوں میں غرق ہو گئے۔ اٹھائیس سال کی عمر میں برادر و مرشد کے انتقال کے بعد صاحب سجاد ہوئے مگر سجادگی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے گوشہ نشینی اختیار کرنے کو ترجیح دی اور زوہی، نامی صحرا اوبیابان کا رخ کیا اور کم و بیش اٹھارہ برس تک بیابانوں کو آباد کرتے رہے۔ وہ اپنی شاعری میں روہی کو ہی اپنا محبوب گردانتے ہیں۔ ان کا کلام عشق مجازی کے شدید تجربے کی دلالت کرتا ہے۔ ان کی کافیوں میں انسانی حوالوں کے ساتھ عشق کی درماندگیاں، ہجر کے سوز وصال کی آرزو، انتطار کا کرب، محبوب کی جفاء بے نیازی اور ستم پسندی کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔ لیکن اگر ان کے کلام کو بغور پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا عشق محض عشق مجاز نہ تھا بلکہ اس نے اطلاق کا رنگ بھی اختیار کر لیا تھا۔ پوری کائنات اس میں سمٹ آتی تھی اور اس نے ان کے حوالہ جاتی نظام کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی تک سفر انہوں نے فلسفہ، وحدت الوجود کی مدد سے طے کیا تھا۔ لیکن انہوں نے انسانی خودی کی نفی کو روحانی معراج قرار نہیں دیا ان کے نزدیک یہ آدرش اس وقت حاصل ہوتا ہے جب خودی استحکام حاصل کرتی ہے اور اپنی تکمیل کرتی ہے۔ مشاعرے میں، محمود شام، مسلم شمیم، اکرام الحق شوق، محترمہ زیب النساء زیبی، محترمہ مہر النساء جمالی محترمہ نذیر ناز، وقار زیدی، فرحت اسرار، صبیحہ صبا، فیروزناطق خسرو، سیف الرحمن سیفی، بونیر بابا، سید صغیر احمد جعفری الطاف احمد، اختر علیم سید، افروز رضوی، ضیاء شہزاد الحاج نجمی، جمیل ادیب سید، خالد نور، محمد ریاست، سلطان مسعود شیخ، شہریار علی، شاہ روم خان ولی، ڈاکٹر ایس ایم خالد، کشمیر سومرو، جنت جان، شبیر نازش، شام درانی، سید حجاب فاطمہ، سحر علی، نصیر سومرو، سید شاہد رصا، نداخان، اظہر بانبھن نے اپنا کلام سنا کر خواجہ غلام فریدؒ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔ قادر بخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
گزشتہ دنوں معروف شاعر و صحافی اختر سعیدی کی رہائش گاہ پر پائے کی دعوت کا اہتمام کیا گیا اس موقع پر تنقیدی نشست اور شعری نشست بھی ہوئی۔ بزرگ شاعر رشید اثر نے صدارت کی، شاہد اقبال شاہد، مہمانِ خصوصی تھے۔ رشید خان رشید نے نظامتی فریضہ انجام دیا، محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جب کہ اختر سعیدی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے دوستوں کے اصرار پر میں نے ’’بڑے پائے‘‘ کی دعوت کا انتظام کیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ تنقیدی نشستیں بھی اردو ادب کے فروغ میں معاون و مدد گار ہیں ایک زمانہ تھا کہ جب تنقیدی نشستوں کا بہت رواج تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ سلسلہ متروک ہو تا جا رہا ہے لیکن ہمارے ادارے فکرِ نو کے منشور میں تنقیدی نشستوں کا انعقاد شامل ہے جب کہ ہم یادِ رفتگاں کے حوالے سے کئی پروگرام کر چکے ہیں۔ اس تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا، جب کہ تاج علی رانا نے نعتِ رسول پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ رشید خان رشید نے اپنی غزل برائے تنقید پیش کی۔ سب سے پہلے راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ رشید خان نے اپنی اس غزل میں اپنے تجرباتِ زندگی نظم کرنے کے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی دعوتِ فکر دی ہے ان کی غزل کا یہ مصرع ’’تنگ آگیا ہوں میں بھی غمِِ روزگار سے‘‘ ان کی اپنی زندگی کا عکاس ہے انہوں نے کسبِ معاش کے سلسلے میں جو تگ و دو کی ہے میں ان سے بڑی حد تک واقف ہوں کیونکہ میں ان کو تقریباً تیس سال سے جانتا ہوں پھر رشید نے اسی غزل کے مقطعے میں کہا کہ ’’گھبرا کے مر نہ جائیں کہیں انتظار سے۔‘‘ اس شعر میں شاعر نے غمِ جاناں کا تذکرہ کیا ہے اور وہ اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ اب تو مجھ سے ملنے چلے آؤ، ایسا نہ ہو کہ میں تمہارے انتظار میں اپنی جان سے گزر جاؤں۔ محمد علی گوہر نے کہا کہ رشید خان کی اس غزل میں تغزل بھی ہے اور معاشرتی کرب کا اظہار بھی، اس غزل کا مطلع اور مقطع خاص طور پر بہت اچھے ہیں میں ایک اچھی غزل کہنے پر خان صاحب کو مبارک باد پیش کرتاہوں، غلام علی وفا نے کہا کہ رشید خاں نے اپنی غزل میں یہ پیغام دیا ہے کہ ہم زمانے کو پیار و محبت سے فتح کر سکتے ہیں یعنی لوگوں کے دلوں کو محبت سے جیتا جا سکتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم محبتیں بانٹیں نفرتیں ختم کریں۔ علی کوثر نے کہا کہ رشید خاں بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں۔ ان کے اشعار میں زمانے کے تجربات بولتے ہیں اس غزل کے کئی اشعار ہمیں دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک اچھی غزل ہے۔ ماہ نور خان زادہ نے کہا کہ رشید خاں اس غزل میں کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسی بہار آئی ہے کہ پھولوں کا دامن تار تار ہے لیکن وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مایوسی کفر ہے‘ ایک نہ دن خزاں کا دور ختم ہوگا باالفاظ دیگر وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمارے ملک سے دہشت کا خاتمہ ہوگا اور امن وامان بحال ہوگا۔ مہمان خصوصی شاہد اقبال شاہد نے کہا کہ یہ ایک معیاری غزل ہے اس میں خامیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ہمیںیہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ رشید خاں‘ غالب ثانی نہیں ہیں کیونکہ ہر شاعر کے کلام میں شاعر کا مطالعہ نظر آتا ہے‘ اس کی فنی سطح نظر آتی ہے‘ اس کی شاعرانہ اُڑان نظر آتی ہے۔ رشید خاں نے اس غزل میں زندگی کے مختلف شعبوں پر روشنی ڈالی ہے۔ صاحبِ صدر نے بحث سمیٹتے ہوئے صدارتی خطاب میں کہا کہ تنقیدی نشستیں ہر زمانے کی ضرورت رہی ہیں لیکن آج کل تنقید کی آڑ میں تنقیص ہو رہی ہے‘ ہمیشہ تعمیری تنقید سے اچھائیاں جنم لیتی ہیں۔ تنقید کرتے وقت صرف تخلیق پر گفتگو ہونی چاہیے‘ شخصیت پر نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر یہ غزل ایک کامیاب تخلیق ہے اس غزل کے چار شعر تو بہت جان دار ہیں مجھے امید ہے کہ رشید خاں کی ترقی کا سفر جاری رہے گا اور یہ ایک دن اپنی منزل پالیں گے۔
تنقیدی نشست کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا‘ صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا و شاعرات نے اپنی غزلیں سنائیں ان میں غلام علی وفا‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ غلام غوث بدر‘ سحر حسن‘ تاجور سلطانہ‘ ذکیہ خانم‘ ماہ نور خان زادہ‘ بدر فاطمہ‘ علی کوثر‘ تاج علی رانا اور عاشق حسین شوکی شامل تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
معروف شاعر و افسانہ نگار عباس رضوی نے فہیم اسکول سسٹم گلشن اقبال میں ادبی تنظیم تخلیق کار کی ماہانہ ادبی نشست کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ افسانے کا ہر کردار واضح ہونا چاہیے‘ اس کے مکالمے جان دار ہونے چاہئیں‘ ان میں کسی قسم کا ابہام نہ پایا جائے۔ ایک اچھے افسانہ نگار کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے قارئین کو اپنی تحریر میں ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔ افسانہ کی تھیم افسانے کو خوش گوار بناتی ہے‘ کسی بھی معاشرتی برائی کو افسانے کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ ہر زمانے کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں‘ اس لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ موجودہ زمانے کو لکھے۔ اس لیے اچھے قلم کار عہدِ حاضر سے جڑے رہتے ہیں۔ ادبی تنظیم تخلیق کار‘ مشاعرے اور مذاکرے کا اہتمام کرتی ہے کبھی یہ تنظیم صرف مشاعرہ کراتی ہے اور کبھی مذاکرہ اور مشاعرہ ساتھ ساتھ ترتیب دیتی ہے۔ اس مہینے انہوں نے افسانے کو موضوع بحث بنایا تھا۔ اس موقع پر نورالہدیٰ سید نے اپنا افسانہ ’’دیر ہوجانے کے بعد‘‘ پیش کیا۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان نے ’’بدلتی فضا‘‘ کے عنوان سے اپنا افسانہ پیش کیا اور محمد امین الدین نے ’’دو ادھورے سائے‘‘ پیش کیا۔ ان تینوں افسانوں پر تنقیدی گفتگو ہوئی۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ افسانہ زندگی کی حقیقتوں سے جنم لیتا ہے۔ ہر افسانے میں کوئی نہ کوئی ایسا کردار اور واقعہ موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جب تک افسانے میں سسپنس نہیں ہوگا‘ افسانہ کامیاب نہیں ہوگا۔ ان تینوں افسانے میں جو کہانیاں بیان کی گئی ہیں وہ زمینی حقائق سے قریب تر ہیں اس لیے یہ افسانے قابلِ قبول ہیں۔
زاہد حسین نے کہا کہ تینوں افسانوں میں نئے مضامین لکھے گئے ہیں اس طرح ان افسانوں میں سماجی زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔ نورالہدیٰ سید کے افسانے میں لفظوں کے نشست و برخواست کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے اور کرداروں کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امین الدین کے افسانے نے مجھے پوری طرح اپنے حصار میں جکڑ لیا ہے اور جب تک افسانہ ختم نہیں ہوا‘ میں کسی اور طرف توجہ نہ دے سکتا۔ یہ ایک کامیاب افسانے کی علامت ہے۔ اسی طرح شکیل احمد کا افسانہ اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت شان دار تھا۔ انہوں نے زمانے کی بدلتی ہوئی فضا کی عکاسی کی۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جب زمانہ بدلتا ہے تو لوگوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ ہر اچھا قلم کار لوگوں کی ذہنی سطح اور فکری شعور کو مدنظر رکھ کر تخلیق کرتا ہے جو قلم کار ایس انہیں کرتے وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں۔ تقریب میں رضوی صدیق مہمان خصوصی تھے جب کہ زاہد حسین اور شبیر حیدر مہمانانِ اعزازی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حجاب عباسی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ عدیل جعفری نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اپنی ادبی تنظیم کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے علاوہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جس میں ایک بڑا مشاعرہ کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ادبی تنظیم اگرچہ نوزائیدہ ہے تاہم ہمارے عہدیداران و اراکین انتہائی ذمے داری سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ امید ہے کہ ہم بہت جلد کراچی کے معتبر تنظیموں میں شمار ہوں گے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر اور مہمانان اعزازی کے علاوہ فیروز ناطق خسرو‘ رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ سلمان صدیقی‘ سیما غزل اور اختر علیم سید نے اپنا کلام پیش کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
معروف شاعر‘ محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اردو زبان و ادب کی ترویج نہایت ضروری ہے اس عمل سے نوجوان نسل کی ذہنی صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’الفا ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کی جانب سے منعقدہ مذاکرے اور مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’معاشرے کی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار‘‘ بہت اہم ہے کوئی بھی ملک و قوم نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ جب ہم اپنے بچوں کو جدید علوم سے آراستہ نہیں کریں گے معاشرے میں موجود خرابیاں دور نہیں ہوسکتیں۔ آج کی نوجوان نسل مستقبل کی معمار ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں ہمیں تجربہ کار افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمیں بعض شعبوں کے لیے نوجوان درکار ہوتے ہیں اسی طرح اردو زبان و ادب کے فروغ میں نوجوان نسل کی شمولیت سے مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہمار ا ثقافتی سرمایہ نوجوان نسل تک منتقل ہونا چاہیے۔ تقریب کے مہمانانِ خصوصیء شکیل احمد اور منظور احمد تھے۔ شکیل احمد نے اس موقع پر کہا کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی توجہ دیتے ہیں ہمارے اسکول میں مشاعرے بھی ہوتے ہیں اور مختلف قسم کے انڈور گیمز کے علاوہ کرکٹ و فٹ بال بھی کھیلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے میں بزمِ ادب کا قیام لازمی ہے تاکہ طلبہ و طالبات میں شاعری سمجھنے کی صلاحیت بیدار ہوسکے۔ منظور احمد نے کہا کہ ادبی سرگرمیاں معاشرے کی ضرورت ہیں۔ ادیب اور شعرا معاشرے کے نباض ہوتے ہیں‘ جو معاشرہ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ ہر طبقۂ فکر کی تعلیمی ضروریات پوری ہوسکیں۔ حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے۔ پروگرام میں رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر صاحبِ صدر‘ ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام سنایا ان میں غلام علی وفا‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ یوسف چشتی‘ ماہ نور خانزادہ‘ سحر حسن‘ آئرین فرحت‘ اجور سلطانہ‘ ندیم الحق ندیم‘ عاشق حسین شوکی‘ علی کوثر‘ گلزار بانو‘ مہتاب شاہ جمالی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عارف شیخ‘ محسن حسن اور علی جواد شامل تھے۔ الفاء ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے مہمانوں کو پھولوں کے تحائف پیش کیے گئے۔

حصہ