ذی الحجہ کے دس ایام کے مسنون اعمال

1747

مولانا نادر عالم
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان اعمال سے بہتر کوئی اعمال نہیں جو ان دس دنوں میں کیے جائیں۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی افضل نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، ہاں مگر جو جہاد کے لیے خود نکلے اور اپنا مال بھی ساتھ لے جائے پھر لوٹ کر نہ آئے۔ (بخاری)
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ان دس دنوں سے بڑے کوئی دن نہیں اور ان دنوں میں نیک اعمال سے اچھے کوئی اعمال نہیں۔ پس لاالہٰ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کثرت سے پڑھو۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے افضل دن عرفہ (9 ذی الحجہ) کا دن ہے۔
ذی الحجہ کے دس ایام میں مسنون اعمال حج اور عمرہ ادا کرنا:
یہ سب سے اہم عمل ہے جس کی فضیلت کئی احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ، یہ درمیان کے گناہوں کے کفارے کا سبب بنتا ہے اور حج کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔
ان دنوں میں روزے رکھنا بالخصوص یوم عرفہ کا روزہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ بڑی فضیلت والے اعمال میں سے ایک عمل ہے، اس عمل کو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے لیے پسند کیا ہے اور فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا کیونکہ میرا بندہ میرے لیے اپنی خواہشات، کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ (حدیث قدسی)
حضرت ابوسعید الخدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستّر خریف دور لے جاتے ہیں۔ (یہ فاصلہ ستّر سال پیدل چلنے کے برابر ہے)
حضرت ابوقتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یوم عرفہ (9 ذی الحجہ) کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے سال اور آنے والے سال کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔
اللہ کا ذکر اور تکبیر پڑھنا:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ کے نام کو ان دنوں میں یاد کرو‘‘۔ ان دنوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ علمائے کرام نے فرمایا کہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا مستحب ہے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں لاالہٰ الااللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کثرت سے پڑھا کرو۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں بازار نکلتے تھے اور تکبیر یعنی اللہ اکبر پڑھتے تھے، پھر لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر پڑھتے۔
حضرت اسحاقؒ فقہاء تابعین سے روایت کرتے ہیں کہ وہ لوگ ان دس دنوں میں اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہٰ الااللہ اللہ اکبراللہ اکبروللہ الحمد پڑھتے تھے۔
مستحب ہے کہ تکبیر بازار میں، راستوں میں، مسجد میں اور دوسرے مقامات پر بلند آواز سے پڑھی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو، اس نے تم کو ہدایت کا راستہ دکھایا ہے۔
فقہاء تابعین فرماتے ہیں کہ تکبیر اجتماعی طریقے سے پڑھنا جائز نہیں۔ اس طرح سب لوگ ایک آواز اور ایک تلفظ کے ساتھ پڑھیں مگر کسی ناواقف شخص کو سکھانے کی غرض سے ساتھ ملا کر تکبیر پڑھی جا سکتی ہے۔ تکبیر کے علاوہ کسی بھی الفاظ سے ذکر و ازکار کرنا بھی مستحب ہے جو تکبیر، تسبیح اور تحمید (یعنی اللہ اکبر سبحان اللہ الحمدللہ) کی اقسام سے ہوں۔ اسی طرح ہر قسم کی مسنون دعائیں پڑھنا بھی مستحب ہے۔
تکبیر سے مراد دن و رات میں کبھی بھی تکبیر پڑھی جائے، یہ سلسلہ عید کی نماز تک رہتا ہے۔ تکبیر مقیّدا سے مراد وہ تکبیر ہے جو ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جائے۔ یہ تکبیر غیر حاجیوں کے لیے 9 ذی الحجہ کی فجر کی نماز سے شروع ہوگی اور 13 ذی الحجہ کی عصر کی نماز پر ختم ہوگی۔ حاجیوں کے لیے 10 ذی الحجہ کی ظہر کی نماز سے شروع ہوکر 13 ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک (اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد)
توبہ کرنا، گناہوں سے بچنا:
ان ایام میں کثرت سے استغفار کیا جائے اور گناہوں سے بچا جائے تاکہ مغفرت اور رحمت کے عمل کی ترتیب شروع ہوجائے، کیونکہ نافرمانی اور گناہ اللہ سے دوری اور علیحدگی کا سبب بنتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کا جلال ہے، اور اللہ کا جلال اُس وقت ہوتا ہے جب انسان وہ کام کرے جو اُس نے حرام کردیئے ہوں۔
اچھے اعمال کثرت سے کرنا:
ان اعمال میں نفلی عبادات ہیں جیسے نفلی نمازیں، صدقہ، قرآن پاک کا پڑھنا، اچھے کام کا حکم دینا اور برے کام سے روکنا وغیرہ۔ ان اعمال کا ثواب ان دنوں میں کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔ یہ اعمال اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہیں مگر ایام ذی الحجہ میں اللہ کے نزدیک اور محبوب ہوجاتے ہیں۔
بال اور ناخن کا نہ کاٹنا:
حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بال اور ناخن اُس وقت تک نہ کاٹو جب تک تم قربانی نہ کرلو۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حکم اُن لوگوں کے ساتھ مشابہت رکھنے کے لیے دیا گیا جو حج پر قربانی ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان کو بال نہ کاٹنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور فرمایا ’’اپنے سر کے بالوں کو اُس وقت تک مت کاٹو جب تک قربانی اپنے مقام تک نہ پہنچ جائے‘‘۔ اس کی پابندی ان لوگوں کے لیے ہے جو قربانی کررہے ہیں مگر بیوی اور اولاد پر نہیں۔ ہاں اگر گھر کا کفیل گھر کے کسی فرد کی طرف سے بھی قربانی کررہا ہو تو اس فرد کو بھی پابندی کرنی ہوگی۔ غسل کرتے وقت یا کھجاتے وقت اگر کوئی بال یا ناخن ٹوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
عید کی نماز ادا کرنا:
تمام مسلمان عید کی نماز ادا کریں، خطبہ سنیں اور اس سے استفادہ کریں۔ تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اس دن کی اہمیت سے واقف ہوں۔ یہ معلوم ہو کہ یہ شکر اور نیک عمل کرنے کا دن ہے۔ اس دن کو برے کاموں کا دن نہ بنائیں جیسے بعض حضرات اس دن کو رقص و موسیقی اور فلمیں دیکھنے کی نذر کردیتے ہیں، بعض لوگ شراب و نشہ کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں۔ تمام مسلمان مرد اور عورتوں کو چاہیے کہ ذی الحجہ کے ایام اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کے ذکر و شکر کے ساتھ مختص کریں، اللہ تعالیٰ کے احکام پر پابندی سے عمل پیرا ہوں اور برائیوں سے بچیں، ممکن ہے کہ یہ ایام اللہ کی رضا حاصل کرنے کا سبب بن جائیں۔
قربانی کرنا:
12,11,10 ذی الحجہ کو قربانی کرنا، یہ سنتِ ابراہیمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنبے اپنے ہاتھ مبارک سے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیے تھے۔

حصہ