یہ کرب و اذیت اب برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ وجود چھلنی ہے۔۔۔۔زخم زخم ہے۔۔۔اتنے ٹکڑے ہوئے ہیں وجود کے ان کو سمیٹتے سمیٹتے صدیاں لگ جائیں۔۔۔۔ صرف سوا سال کی مختصر مدت میں اتنے بڑے انسانی المیے نے کرہ ارض کے ایک چھوٹے سے حصے پہ جنم لیا ہے کہ اس سے پہلے شائد دنیا کی تاریخ میں ایسی نسل کشی نہیں دیکھی گئی۔ ظلم کی ایسی بدترین مثال نہیں ملتی۔
آج کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والی قومیں !!! سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہلاکت خیز ایجادات ،کائنات کی بلندیوں کو چھونے اور مریخ پہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے شوقین انسانوں کی درندگی نے درندوں کو شرمادیا ہے۔ اس درندگی کی سب سے بدترین مثال اسرائیل نے اور اس کے دہشت گرد یار امریکہ اور اس کے حواریوں نے پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلم ممالک کے سربراہان اور سیاستدانوں نے خاموش حمایت کے ذریعے اس درندگی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہے ۔ ظالم کے ظلم پہ خاموشی اختیار کرنا دراصل اس ظالم کا ساتھ دینا ہی ہے ۔ اس کے ظلم کی تصدیق کرنا اور اخلاقی جواز مہیا کرنا ہے۔
فلسطین کے ایک حصے غزہ میں جس انسانی المیہ نے آج سے چودہ ماہ پہلے جنم لیا گو کہ یہ ظلم تو کئی عشروں سےجاری ہے اور غزہ درحقیقت ایک بہت بڑی جیل ہے جس میں بقول حافظ نعیم الرحمن اکیس لاکھ انسان بطور قیدی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اب تو یہ مذبح خانہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 45،484 افراد کی شہادت( ایک اندازہ کے مطابق تو یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جوکہ ملبے تلے دبے ہیں ) ، لاکھوں افراد زخمی ہیں، بیماری ،سردی اور بھوک سے ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔۔۔ رپورٹ کے مطابق 365 اسکوائر کلومیٹر پہ مشتمل غزہ کا علاقہ 85000 ٹن سے زیادہ بارودی بمباری کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ۔ شہر کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ مکانات،کاروبار،مساجد،اسکول،یونیورسٹیاں، ہسپتال ( اسرائیل کی تازہ کارروائی کے نتیجے میں آخری ہسپتال کمال عدوان ) و دیگر انفراسٹرکچر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 40 ملین ٹن کے ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کو صاف کرنے کیلئے 15 سال کی مدت اور 500 ملین ڈالر کا سرمایہ درکار ہے ۔
اس وقت غزہ کے مظلوم مسلمان سردی، بارش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور ان کے خیموں پہ اسرائیلی بمباری بھی جاری ہے،خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بھی شہادتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس موقع پہ امت مسلمہ کہاں ہیں ؟؟؟ نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی کہاں ہیں؟؟؟ نبی مہربان نے تو امت کو جسد واحد سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے جسم کے ایک حصے میں درد ہوتو پورا جسم متاثر ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کسی تکلیف میں ہو تو پوری امت اس کرب کو محسوس کرتی ہے اور بے چین ہو جاتی ہے ۔۔۔ لیکن وائے افسوس!!! آج امت بے حس ہوگئی اس کا پورا وجود زخم زخم ہے لیکن وہ سکتے کے مریض کی طرح بے حس و حرکت پڑی ہے۔ فلسطین ایک ٹیسٹ کیس ہے پوری امت مسلمہ کیلئے۔
پاکستان میں جماعت اسلامی اس فرض کفایہ کو ادا کر رہی ہے پوری پاکستانی عوام کی طرف سے۔ اسلام آباد میں غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں کھل کر اسرائیل اور امریکہ کے ظلم کے خلاف آواز بلند کریں( عمران خان صاحب پتہ نہیں کیوں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف آواز نہیں اٹھارہے اب کیوں لب سئیے بیٹھے ہیں ) حماس دہشت گرد نہیں ہے بلکہ امریکہ دہشت گرد ہے جس کی سرکردگی میں اسرائیل یہ نسل کشی کررہا ہے ۔ حماس اپنے دفاع کیلئے جدوجہد کررہی ہے قبلہ اول کی آزادی کیلئے لڑ رہی ہے ۔حکومت اسلام آباد میں حماس کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دے۔ فلسطینی بچوں کی غذا ،علاج،تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے،اسرائیلی و امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ امریکی غلامی سے نجات حاصل کئے بغیر نہ پاکستان ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی کھل کر فلسطینیوں اور حماس کی اخلاقی و سفارتی مدد و حمایت کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کو سفارتی محاذ پہ تنہا کرنے کی مہم کا آغاز کیا جائے۔ اس وقت امتحان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے سربراہان اور ان کے پیروکاروں کا بھی ہے ۔عوام چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اس وقت تمام سیاسی اختلافات کو بھلا کر اور تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر امت مسلمہ بن کر سوچیں کہ انہیں اللہ و رسول کے احکامات پہ عمل کرنا ہے ،آخرت میں جوابدہی کی فکر کرنی ہے یا ایسے لیڈروں کے پیچھے اپنے آپ کو تھکانا اور اپنی دنیا و آخرت کو داو پہ لگانا ہے جن کا سیاسی و دینی ایجنڈا غیر واضح ، جن کی پالیسیاں سمجھ سے بالاتر ،جن کا رویہ افراط و تفریط پہ مبنی ، جو اپنی خواہشات نفس کے غلام ، جن کے آقا اللہ کے باغی و نافرمان اور ظالم ہیں ۔۔۔ حتی کہ ان کے مشن و ویژن بھی قوم کو معلوم نہیں ہیں کہ وہ آخر چاہتے کیا ہیں ؟؟؟ کیا ایسے لیڈروں کے پیچھے اپنی عمر،جوانی، مال ،صلاحیتیں، جان سب کچھ لگا نے سے اللہ کی رضا و جنت مل سکتی ہے؟؟؟ دنیا اپنے اختتام کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے!!!! اس وقت ہمارا کیا ہوا ہر ہر فیصلہ اور اٹھایا ہوا ہر ہر قدم ہمیں یا تو انجام خیر کے قریب کرے گا یا خاکم بدہن ہمیشگی کی ذلت و رسوائی میں دھکیل دے گا ۔۔۔آخری معرکہ برپا ہونے کو ہے فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہوں!!! حق والوں کی صف میں یا باطل کا ساتھ دینے والوں کی صف میں؟۔