نیکی چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کی فضیلت اور اجر و ثواب روز محشر نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کردے گا۔ذیل میں چند ایسی چھوٹی چھوٹی نیکیاں درج ہیں ۔ ان پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔
بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے،” ہمارے اردگرد بہت سارے ایسے گھرانے یا افراد جو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاسکتے ۔ ایسے سفید پوش گھرانے جو مہنگائی کے سبب اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی مہیا نہیں کر پارہے ۔ ان کو پیٹ بھر کر کھانا مل جائے تو کیا خوشی ہوگی اور ان کے دل سے کتنی دعائیں نکلیں گی ۔
رسول اللہ صَلی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے، اللّٰہ تعالیٰ اُسے جنت کے پھل کھلائے گا ۔( ترمذی)
اورحضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مغفرت لازم کر دینے والی چیزوں میں سے بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا ہے”
“صدقہ دینا”
صدقہ دینے کے کئی فضائل آئے ہیں۔ راہِ خُدا میں خَرْچ کرنا ، اِنْسان کی اپنی ذات کیلئے بھی مُفید ہے ، جو دل کھول کر نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں ، غریبوں محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ، اُن کے مال میں حیرت انگیز طور پر ترقّی و بَرَکت ہوتی چلی جاتی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے “ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اُگائیں ، ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللّٰہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے”
صدقہ دینے سے بظاہر مال کم ہورہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت صدقہ نامَۂ اعمال کونیکیوں سے بھر رہا ہوتا ہے۔ جس طرح کنویں کا پانی نکالنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے ، اسی طرح راہِ خدا میں خرچ کیا ہوا مال بھی کم نہیں ہوتا بلکہ اس میں مزید بَرَکت اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضوراکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےصدقے کے کئی فضائل ارشاد فرمائے ہیں۔
حضور اکرم۔صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔نے ارشاد فرمایا ” صَدَقہ بُرائی کے 70 دروازے بند کرتا ہے۔ “
ایک اور حدیث میں ارشادفرمایا :” ہر شَخْص (قِیامَت کے دن) اپنے صَدقے کے سائے ميں ہوگا يہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما ديا جائے
” ہدیہ دینا”
ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسروں کا دل خوش کرنے کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرتا ہے ۔ ہدیہ دیتے وقت مقصود رضائے الٰہی ہو اور اخلاص کے ساتھ دیا جائے تو اس کا بہت ثواب ہے ۔ زندگی میں بہترین باہمی تعلقات میں ہدیے یعنی تحائف وغیرہ کے تبادلے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خلوص و محبّت کا اظہار کرنے اور رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ دلوں کے جوڑنے کا حیرت انگیز طریقہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: ”ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تاکہ) باہمی محبت قائم ہوسکے “
” رشتے داروں سے صلہ رحمی کرنا “
صلہ رحمی کا مطلب ہے کہ رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا۔ یعنی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اپنی ہمت کے بقدر ان سے مالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، وغیرہ۔ یعنی ان کےساتھ بہترتعلقات قائم رکھنااوران کی ہم دردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا ۔رشتے داروں میں۔”اصول“ (جیسےوالدہ اور والدہ کے آگے والدین،اسی طرح والد اور والد کے آگے والدین ) اور ”فروع“ (جیسے بیٹی اور بیٹی کی آگے اولاد ،نیز بیٹے اور بیٹےکی آگے اولاد)کےساتھ ساتھ قریب وبعید کےباقی تمام رشتہ دار بھی داخل ہیں۔ البتہ جو زیادہ اقرب ہے اُس کا حق مقدم ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا” ۔حدیث شریف ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے: ایک ظلم، دُوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ)
وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے