گھر کے باہر علی اور فاطمہ شام کے وقت بیٹھے شہر کے مسائل پر بات کر رہے تھے۔ ہر روز کی طرح آج بھی بجلی کی طویل بندش، پانی کی قلت، اور کچرے کے ڈھیر ان کی گفتگو کا محور تھے۔ علی نے مایوسی سے کہا، “یہ سب مسائل کب ختم ہوں گے؟ ہر بار ہم ووٹ دیتے ہیں، لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے۔”
فاطمہ نے کچھ دیر سوچا اور کہا، “مسئلہ صرف رہنماؤں کا نہیں، بلکہ ہمارا بھی ہے۔ ہم نے ہمیشہ جذبات میں آ کر ایسے لوگوں کو منتخب کیا جو ہمارے اعتماد کے لائق نہیں تھے۔” علی نے چونک کر کہا، “تو کیا ہم ہی قصوروار ہیں؟”
فاطمہ نے سر ہلایا۔ “ہاں، علی۔ ہمارے پاس ووٹ کی طاقت ہے، لیکن ہم نے اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے کے بجائے ایک رسم بنا لیا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو عوامی خدمت کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہتے ہیں۔”
اسی دوران، ان کا دوست زاہد آ گیا، جو ہمیشہ شہر کے مسائل پر گہری نظر رکھتا تھا۔ زاہد نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا، “ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ قیادت کے لیے دیانت دار اور مخلص افراد کا انتخاب کرنا ہوگا، ورنہ یہ مسائل کبھی ختم نہیں ہوں گے۔”
علی نے سوال کیا، “لیکن ہم دیانت دار قیادت کیسے پہچانیں؟” زاہد نے وضاحت کی، “دیانت دار قیادت وہ ہوتی ہے جو عوام کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے، وسائل کا صحیح استعمال کرے، اور اپنے وعدوں پر قائم رہے۔”
فاطمہ نے مزید کہا، “اور یہ صرف قیادت کا مسئلہ نہیں، بلکہ عوام کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر ہم خود شعور پیدا کریں اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھائیں تو تبدیلی ممکن ہے۔ ہمیں اپنی سوچ اور عمل میں یکسانیت لانی ہوگی۔”
زاہد نے ایک واقعہ سنایا، “کچھ عرصہ پہلے میں نے جماعت اسلامی کے ایک دیانت دار شخص کو اپنی گلی کی ترقی کے لیے کام کرتے دیکھا۔ اس نے نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھایا بلکہ اپنے فیصلوں میں شفافیت بھی رکھی۔ یہی وہ قیادت ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔”
علی نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، “یہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہم عوام کی سوچ کیسے بدل سکتے ہیں؟” فاطمہ نے پرعزم لہجے میں کہا، “ہمیں اپنے ارد گرد شعور پھیلانا ہوگا۔ لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ووٹ صرف ایک حق نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ اگر ہم صحیح رہنما منتخب کریں گے تو کراچی کے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔”
رات کی تاریکی چھا رہی تھی، لیکن ان تینوں کے دلوں میں امید کا چراغ روشن تھا۔ وہ جانتے تھے کہ تبدیلی آسان نہیں، لیکن اگر عوام باشعور ہو جائیں اور صالح قیادت کو منتخب کریں تو کراچی کے مسائل کا خاتمہ ممکن ہے حل صرف جماعت اسلامی ۔