یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ “ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے، آج بنگلہ دیش میں تاریخ اسی بات کو رقم کر رہی ہے ۔ہم نے سقوط ڈھاکہ یعنی بنگلہ دیش بننے کے حوالے سے جو کچھ بھی اپنے والدین کی زبانی آنکھوں دیکھا حال سنا، جو قیامت ان کی اور ان جیسے لاکھوں خاندان پر گزری ہمارے قلم میں تو اتنی طاقت نہیں کہ صفحہ قرطاس پر منتقل کر سکیں ۔بھارت نواز مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہر خاندان اپنی ایک کتاب لکھ سکتا ہے ۔بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جن لوگوں ( اردو بولنے والوں)نےپاکستان کا ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔ان پر زندگی تنگ کر دی گئی ،انہیں مجبور کیا گیا کہ اگر بنگلہ دیش میں رہنا ہے تو اپنی شناخت ختم کر کے بنگالی بن کر رہنا ہوگا ورنہ ان کے لیے اس دیس میں کوئی جگہ نہیں۔
ہزاروں خاندان دوبارہ ہجرت کے کرب سے گزرے ، ہزاروں نے مجبوراً بنگالی خاندانوں میں شادیاں کیں اور وہیں کے ہو رہے جس کی انہیں (اپنی شناخت کھونے کی )بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ابھی بھی بہت سے خاندان ایسے ہیں جن کے آدھے افراد پاکستان میں اور آدھے بنگلہ دیش میں ہیں ،جو مکمل طور پر بنگالی بن چکے ہیں انہیں نہ اردو سمجھ میں آتی ہے نہ بولنا آتا ہے ۔
بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ دور اقتدار میں اپنے مخالفین کے خلاف متشدد،ظالمانہ اور متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے نوجوانوں کے اندر جو غیض و غضب پل رہا تھا۔۔۔۔وہ مثل لاوا ابل پڑا اور آخر کار 5 اگست 2024 کو حسینہ کی حکومت بہا لے گیا ۔اس کو خود بھی ادراک نہ ہوگا کہ کاتب تقدیر نے کیسی ذلالت اس کے نصیب میں لکھ رکھی تھی۔۔۔۔۔۔ نہ ہی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک وزیراعظم سے جب کہا جائے کہ “آپ کے پاس صرف 45 منٹ ہیں” تو اس کی بے بسی کا کیا عالم ہوا ہوگا۔
یہ سب صرف اور صرف نوجوانوں کی متحدہ طاقت کی بدولت ممکن ہو پایا کیونکہ وہاں کے نوجوان یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ،،،
ہوتی نہیں جو قوم۔۔۔ حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے
تاریخ شاہد ہے کہ اپنے اوپر سزا کے طور پرمسلط حکمرانوں سے جان چھڑانے کے لیےجب بھی انقلاب رونما ہوئے ہیں وہ نوجوانوں کی متحدہ جدوجہدکا نتیجہ ہیں، در حقیقت یہ نوجوان طبقہ ہی ہے جو کسی بھی ملک کی تقدیر بدلنے کا ہنر رکھتا ہے یہ ایسا سیل رواں ہوتا ہے جس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا۔
افسوس کہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے حالات اتنے دگرگوں کر دیے گئے ہیں کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ملک چھوڑ کر جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2022 -2023میں تقریبا 8سے 10 لاکھ ہنر مند اور غیر ہنر مند نوجوان ملک چھوڑ کر چلے گئے ۔ اگر آج بھی ہمارے نوجوان ہر قسم کی سیاسی وابستگی، فرقہ پرستی اور عصبیت سے بالا تر ہو کر صرف اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے متحد ہو جائیں تو یقین ہے کہ ہمارے چمن میں بھی بہار آ جائے گی۔۔ پھر کسی نوجوان کو فکر معاش اور بہتر مستقبل کی خاطراپنے بوڑھے والدین کو ،جبکہ ان کی زندگی کی شام ہو چلی ہو، دوسروں کے سہارے چھوڑ کر دیار غیر کی خاک نہیں چھاننی پڑے گی ۔
اے کاش ہم اپنےنوجوانوں کے اندر اس شعر کے مفہوم کو سمونے کی صلاحیت پیدا کرسکیں۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقین لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگ