فلسطینی ! اسوہِ ابراھیمی پر عمل پیرا

 اور وہ ابراہیم جس نے وفا کی” کس کے ساتھ وفا کی ؟ اپنے خالق و مالکٍ حقیقی کے ساتھ بچپن سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک فرمانبرداری کا حق ادا کر دیا۔

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾

“میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا، جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں “

یہ اعلان کر کے راہ توحید اختیار کر لی تو رب کائنات نے تسلیم و رضا کے اس پیکر کی وفاداری پر ایسی مہرِ تصدیق ثبت کی کہ اپنی آخری اور تا قیامت قائم رہنے والی کتاب کو اس پر گواہ بنا دیا ۔ قرآن پاک کی روشنی میں دیکھا جائے تو ابراہیم وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنا تن، من، دھن اور اولاد سب اللہ کی راہ میں قربان کر کے بندگیٔ رب کا اعلی نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے جب معبود حقیقی کو پا لیا اور خلیل اللہ کا لقب مل گیا تو حق دوستی ادا کرنے کی ٹھان لی ۔ تنہا اپنے باپ ، خاندان اور قوم کو للکارا کہ میرے رب واحد کو چھوڑ کر مٹی اور پتھر کے خود ساختہ خداؤں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ پھر شرک کی گندگی کو برداشت نہ کر سکے تو ان کے بتوں کو پاش پاش کر کے نہ صرف توکل علی الله کی اعلیٰ مثال قائم کی بلکہ پوری قوم کی مخالفت مول لے لی۔ پکڑے جانے پر بھی حکومت وقت سے بالکل خوفزدہ نہ ہوئے ۔ سبحان اللہ ! کیسا ہوشمندی کا جواب دیا کہ سب کچھ ان بتوں کے سردار نے کیا ہے، پوچھ لو اُن سے اگر یہ بولتے ہیں ،؟ عقیدہ توحید کی پختگی کا عالم یہ ہے کہ آگ کا الاؤ بھی خلیل اللہ کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکا ۔ جبکہ اس جرم میں گھر سے نکالے گئے ملک بدر ہوئے۔ تبلیغ حق کا فریضہ ادا کرتے ہوئے مصر پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت حاجرہ جیسی وفا شمار بیوی عطا فرمائی ۔ بڑھانے میں پیارا بیٹا اسماعیل عطا ہوا ۔ جو ابھی شیر خوارگی کی عمر میں تھا کہ ایک اور آزمائش آن پڑی ۔ حکم ہوا کہ ماں بیٹے کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آؤ کہ ان کے ذریعے اُس وادئ غیر ذی زرع کو آباد کرنا مقصود تھا۔ خلیل اللہ کی کیا مجال کہ کوئی سوال کرتے۔ فوراً حکم کی تعمیل کی۔ حضرت حاجرہ نے صرف اتنا پوچھا کیا آپ اللہ کے حکم سے ہمیں یہاں چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ حکم خدا جان کر اللہ کی نیک بندی نے سرتسلیم خم کر دیا ۔ فرمایا اگر خدا کا حکم ہے تو بلا شبہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ پھر ننھے اسماعیل کے پاس آ گئیں۔

جہاں بیوی اور بچہ نظروں سے اوجھل ہوئے حضرت ابراہیم نے سکون قلب کے لئے یوں دعا کی ” اے پروردگار ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں ، میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لابسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں۔ بس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور ان کے لئے زمین کی پیداوار سے سامانِ رزق مہیا کر دے تا کہ یہ تیرے شکر گزار ہو جائیں ۔ (سورہ ابراہیم آیت 37)

اس قربانی کو قبولیت کا درجہ یوں عطا ہوتا ہے کہ ممتا کے جذبہ کے ہاتھوں مجبور حضرت حاجرہ پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کی پہاڑیوں پر دوڑ دوڑ کر چکر لگاتی ہیں کہ سات چکر بھی مکمل ہو گئے اور ننھے اسماعیل کی ایڑیوں سے زم زم کا چشمہ بھی پھوٹ نکلا۔ قربان جائیں اس رب کی تدبیروں کے کہ حضرت حاجرہ کی اُس بے قراری کی ادا کو صفا و مروہ کی سعی کی صورت میں شریعت محمدی میں حج کا واجب قرار دیا ۔

پھر وہ وقت بھی آگیا کہ اسماعیل جو مرادَ ابراہیم تھا باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو حکم ہوتا ہے کہ پیارے لخت جگر کو راہِ للہ قربان کر دیجئے ۔ خلیل اللہ تو ہر قربانی کے لئے تیار تھے، ذبیح اللہ نے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا۔ پھر چشم فلک نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ ایک باب عشق الہی کی آخری حدوں کو چھو لینے کی خاطر اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہے۔ اس موقع پر جبرائیل امین بھی آزمائے گئے۔ بارگاہ الہی سے حکم ہوا جبرائیل جلدی جاؤ اسماعیل کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے ۔ چنانچہ مینڈھا ابراہیم علیہ السلام کی چھری سے ذبح ہوا اور اسماعیل نے ذبیح اللہ کا درجہ پالیا۔ خلیل الله اس امتحان میں کامیاب ٹھہرے۔ چنانچہ راہ حق کے اس مسافر کی ہر ہر ادا امت محمدیہ کے لیے تا قیامت اسوہ حسنہ قرار پائی۔ پوری دنیا کے مسلمان ہر سال دس ذی الحجہ کو اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔ لیکن ذرا رکئے، ٹھہر کر غور کیجئے کہ کیا قربانی کرنے والا ہر مسلمان اس روز اپنی خواہشات نفسانی بھی راہِ للہ قربان کرنے کا عہد کرتا ہے؟ نہیں بالکل نہیں ۔ تو مجھے کہنے دیجئے کہ اصل میں ہمارے فلسطینی بھائی آج بھی اسوہ ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں جو کہ کلمۂ حق کی سربلندی کے لئے اپنا گھر بار، خاندان، اولاد سب کچھ لٹا چکے۔ جن میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے ان کے حوصلے بلند ہیں کہ اُنہیں قبلۂ اول کی حفاظت کا فریضہ انجام دینا ہے۔

آگ ہے ، اولادِ ابراہیم ہے ، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

حصہ