جس طرح 8 کروڑ ریڈانڈین کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد ریاست امریکہ ان ریڈانڈین کی قبروں کے اوپر بنائی گئی ہے بالکل اسی طرح عالم عرب میں بوڑھے شیطان تاج برطانیہ نے اپنے سیکریڑی خارجہ کے زریعے جس کا نام آرتھر جیمز بالفور تھا نے ایک خفیہ سازش کی جس کا نام اعلان بالفور تھا یہ معاہدہ یہودیوں کے نمائندے حاییم وایزمین اور ناہوم سوکولو جو کہ لندن میں تھے کے درمیان 2 نومبر 1917 میں کرایا جس میں اس معاہدہے پر دستخط ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی۔ یہ انعام یہویوں کی اس خدمت کے صلے میں تھا کہ یہودی عربوں کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف تاج برطانیہ کا ساتھ دینے پر راضی کریں۔ ہوس اقتدار میں مبتلا اس وقت کے عربوں کےاندر عرب تعصّب پیدا کرنے میں یہودی کامیاب ہوگئے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی سرزمین پر یہودی آباد کاری میں تیزی آگئی اور اس کے بعد اسرائیلی ریاست کا اعلان کرکے سب سے پہلے اس ناجائز ریاست کو برطانیہ نے خود تسلیم کیا اس کے بعد امریکہ نے خود بھی تسلیم کیا اور اس کو مجلس اقوام عالم سے بھی دباؤ ڈال کر تسلیم کروا لیا۔ یہ ایسے ہی ہےکہ جیسے گھر کسی اور کا ہواور گھر کے مالک کی مرضی کے بغیر کوئی محلّے کا غنڈہ گھر کا سودا اپنے جیسے کسی دوسرے لفنگے سے کردے اور پھر جس لفنگے کو اس غنڈے نے گھر بیچا اس کا حق ملکیت سب سے پہلے خود تسلیم کرے اور زور زبردستی کے زریعے اوروں سے بھی یہ تسلیم کرائے۔ اس طرح سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر تو گیا اور عرب دنیا میں چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم تو ہوگئیں مگر ایک رستا ہوا ناسور عرب دنیا کے سینے میں نمودار ہوگیا۔ جس سے خون اور پیپ ستر سالوں سے رس رہا ہے اور اس کی ٹیسیں ساری دنیا کے مسلمان محسوس کررہے ہیں۔
عالمی دہشت گرد امریکہ اور برطانیہ بنیادی طور پر اسرائیل کے حمایت میں ہر طرح کا فوجی اور مالی تعاون پیش کررہے ہیں اور ان کے چند یورپی ممالک مثلاً جرمنی، فرانس اور کینیڈا کھل کراسرائیلی جارحیت کو جائز اور حماس کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں مگر ماتم تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کا ہے جو کہ تیس دن گزر جانے کے بعد بھی منہ سے دھماکے اور فائرنگ کررہے ہیں۔ جبکہ جنگ کی زبان یہ بتارہی ہے کہ یہ جنگ اسرائیل ہر فلسطینی کےخلاف بھی اور اُمت مسلمہ کے خلاف بھی۔
خود اقوام متحد ہ کے چارٹر میں یہ بات درج ہے کہ اگر کوئی ملک یا قوم کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرے گا تو فریق ثانی اپنے ملک اور زمین کو غاصب ملک یا قوم سے چھڑانے یا آزاد کرانے کے لیے مسلّح جدوجہد کا حق رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد بین الااقوامی قوانین کے دائرے میں سمجھی جائے گی اور اس کی حمایت کرنا اقوام متحدہ کی اخلاقی اور قانونی ذ مہ داری قرار پائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین سیمت ایسے تمام علاقے جو کسی نےبھی غصب کیئے ہیں اوراگر وہاں کے لوگ اپنی آزادی کی جنگ جس طرح بھی لڑرہےہیں وہ جنگ قانونی اور آئینی ہے۔ آج تمام اسلامی دنیا میں قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف نہ صرف زبانی بلکہ عملی قدم بھی اٹھایا جائے تو ایسا ہی ہوگا جیسا امریکہ نے مشرقی تیمور کے لیے کیا تھا اگر مشرقی تیمور میں اٹھایا گیا قدم قانونی اور آئینی تھا تو فلسطین اور کشمیر میں یہ قدم اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ کو کیوں ہچکچاہٹ محسوس ہورہی ہے۔ مگر مسئلہ اپنے اپنے مفادات کاہے جو کہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ وابسطہ ہیں۔ پوری دنیا کے مسلم حکمران باالعموم اور پاکستان کا حکمران ٹولہ بالخصوص اپنے انہی ذاتی مفادات کا اسیر ہے۔