ڈرامہ تیرے بن اور ہماراخاندانی نظام

نجی جیو ٹی وی چینل سے پیش کیا جانے والا سیریل بن تیرے اپنی 46ویں قسط آن ائیر کرنے کے بعد اچانک شدید تنقید کا نشانہ بنناشروع ہوا اور علم میں یہ بات آئی کہ شائد اسی ردعمل کی وجہ سے رائٹر نوران مخدوم اور پروڈیوسر سراج الحق کو اگلی قسط کےسین باقاعدہ کاٹنے پڑے اور وائس اوور سے کام چلایا گیا-

میں نےاس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی تھی مگر اس کی متنازعہ شہرت سن کے اس تھپڑ سین سے دیکھنا شروع کیا جس پر بڑی لے دے ہو رہی تھی- کچھ ہی اقساط دیکھی تھیں کہ باضابطہ یہ جملہ منہ پہ آیا کہ اس دو ٹکےکے ڈرامے کے لئے 46 گھنٹوں کی بربادی۔

مجھے تو چھیالیسویں قسط کے تھپڑ تک پہنچنا ہی مشکل لگ رہا تھا- جو زبان جو سوچ اور جو ذہنی غلاظت اس ڈرامے کے رائٹرپروڈیوسر اور اداکاروں کی مشترکہ کوششوں سے پردہ اسکرین پہ نظر آرہی ہے وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا تو دور کی بات ہے، اکیلے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سننے سے بھی ایک شریف انسان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں-

برملا کہنا چاہئیے کہ یہ سیریل ڈرامہ نگار کی پست ذہنیت، وڈیرانہ خیالات اور تشدد پسندانہ سوچ کی کھلی کھلی عکاسی کرتی ہے- ڈرامے کا ہیرو ایک مضبوط، اصول پسند اور انتہائی شریف مرد ہے – مگر یہی انتہائی شریف مرد اپنے والد کے دوست کی مہمان بیٹی کواپنی حویلی کے اندر منہ پہ تھپڑ مارتا ہے اور اسی تھپڑ کا جواز لڑکی کے باپ کو یہ کہہ کر دیتا ہے کہ اگر آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس پہلے ہو جاتا تو اس تھپڑ کی نوبت ہی نہ آتی- اس جملے کا مطلب کیا بنتا ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں- یعنی اگر مہمان آئی ہوئی کوئی لڑکی مجھ سے اتنی بدتمیزی کرے گی کہ تھپڑ کی نوبت آجائے تو میں اس پر ہاتھ اٹھالوں گا۔ واہ جی واہ مرتسم خان کی مردانگی کو سلام پیش کیجئیے یا وڈیرا ہونے پہ داد دیجئیے- اس تھپڑ پر تو خواتین کے حقوق کے علم بردار ان خاموش رہے کوئی شور شرابہ نہ اٹھا۔ آگے چل کے ساس بہو کے منہ پہ تھپڑ مارتی ہے اور مجمع تماشہ دیکھتا ہے- شوہر صاحب بیوی کو سوئمنگ پول میں گرا دیتے ہیں اور جواب میں بیوی شوہر کو، اس نہج پہ آگے بڑھنے والے ڈرامے میں تو یہی دکھلایا جانا باقی رہ گیا تھا کہ بیوی شوہر کو منہ پہ تھپڑ لگائے سو وہ بھی چھیالیسویں قسط میں فلمادیا گیا بلکہ ساتھ میں بیوی نے تھوک کا تڑکا بھی لگا دیا- کیا یہ رائٹر اورپروڈیوسر کی ملی بھگت ہے یا محض اتفاق کہ تشدد کے سین متواتر دکھلائے جاتے رہے۔

میرا اعتراض صرف ایک تھپڑ پر نہیں بلکہ تھپڑ کلچر پہ ہے- یہ غالبا نوے کی دہائی تھی جب سائرہ کاظمی نے حوا کی بیٹی اور زیب النساء جیسے ڈرامے دکھائے اور کلئیر میسج دیا کہ say no to violence- اور یہ کہ عورت سب کچھ سہ لے گی مگر جسمانی مار ۔ یہ وہ حد ہے جہاں عورت اٹھے گی اور no کہے گی- یہ زمانہ میرا ٹین ایج کا زمانہ تھا اور برملا کہوں گی کہ ڈرامے کےاداکاروں اور ڈائیلاگ کو تو آج میں بھول چکی ہوں مگر اس کلئیر میسج کو یقیناً میری جیسی اس دور کی ہر پڑھی لکھی لڑکی نے پلوسے باندھ لیا کہ تم اپنی سیلف ریس پیکٹ کی خود محافظ ہو اور یہ کہ تھپڑ برداشت کی حد ہے۔

آج بیس برس گزرنے کے بعد رونا آتا ہے یہ دیکھ کرکہ وحشت اور درندگی کو گلیمرائز کیا جارہا ہے۔ عورت کی مضبوطی کی علامت اس کا جاہلوں کی طرح لڑنا اور بدتمیزی کرنا دکھایا جارہا ہے۔ ہر ڈرامے میں تھپڑ ضرور آرہا ہے اور پھر وہی تھپڑ سپر ہٹ جاتا ہے- ماں بیٹے کو، باپ بیٹی کو ، ساس بہو کو ، شوہر بیو ی کو مارتا دھکے دیتا تذلیل کرتا ہے۔ اور اب تیرے بن نے آخری حد بھی پار کردی کہ سرکش عورت شوہر کے منہ پہ مارتی ہے-

بھلے سے رائٹر کیسا ہی جذباتی سین create کردے بہرحال اسے یہ بات طے کر لینی چاہیے کہ تشدد نہیں دکھلایا جائے گا اور اس پر پابندی ہونی چاہیے کہ کسی کے منہ پہ مارتے ہوئے دکھایا جائے۔ جسمانی تشدد physical abuse کیا ہمارے معاشرے میں زیادہ ہے یا ہمارے اسکرینوں پر۔ اس سوال کا جواب ہر اسکرپٹ رائٹرپروڈیوسر اور ہر اداکار کے ذمے ہے-

دوسری اہم بات یہ کہ اس ڈرامے کے مقبول ہیرو مرتسم خان مسلسل اسلحہ لیئے پھرتے ہیں- غصے میں ہوں تو ہوائی فائر بھی داغ دیتے ہیں اور محبت کے موڈ میں ہوں تو اپنی محبوبہ بیوی کی سمت بندوق تان کر اس کی نال میں سے محبت بھری نگاہ جماتے ہوئےرومینس بھی جاری رکھتے ہیں- ناظرین کو دئیے جانے والے یہ کھلے کھلے پیغام کیا اتنے ہی بے ضرر ہیں کہ انہیں کیوٹ کہہ کر نظرانداز کر دیا جائے؟ کیا یہ اسلحے کی کھلے عام ترغیب اور جواز نہیں؟ کیا یہی وہ کلچر نہیں کہ جس کا شکار آئے روز انسان ہو رہے ہیں ۔ مرسڈیز پہ گھومنے والا ہیرو جس کی گولی سے بے گناہ جان سے جاتے ہیں مقدمے قائم ہوتے ہیں، مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔

یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں اسلحہ لے کر پھرنے والے وڈیروں،خانوں اور ملکوں کو کالے چشمے اور سوٹ پہنا کر ہیرو دکھلا کر آخر آپ کس کلچر کی پروموشن کر رہے ہیں؟ ایک زمانہ تھا کہ و ڈیرہ سسٹم کی خرابیاں دکھلائی جاتی تھیں اور اب صاف نظر آیا کہ پڑھےلکھے وڈیرے ہیرو ز کی شکل میں پروموٹ کیئے جا رہےہیں۔ یہی ہیرو صاحب بیوی سے اس کی بات کی سچائی کی گواہی مانگتے ہیں اور اسے چھت سے چھلانگ لگانے کا آرڈر جاری کرتے ہیں۔ میں تو دانتوں تلے انگلی دبائے دیکھ رہی تھی کہ اس ہیرو کو ہیرو قراردوں یا ذہنی مریض؟ اور کیا یہی پیغام نہیں دیا گیا کہ ایسے ذہنی مریض کو بھی قبول کرلو کیونکہ وہ تو بڑا سچا اصول پسند اورمحبت نچھاور کرنے والا مرد ہے۔ان سب باتوں کو بھی چھوڑ دیجئیے تب بھی اس غلیظ سیریل کی کہانی جس پلاٹ کے گرد بنی گئی ہے وہ ایسا پلید ہے کہ جس پرلکھتے ہوئے میری انگلیاں کانپتی ہیں-

اب حال یہ ہو گیا ہے کہ لکھنے والوں کو اللہ کے قانون کی دھجیاں بکھیرتے کوئی شرم حیا کالحاظ نہیں آتا – پوری کہانی کا مین آئیڈیا یہ ہے کہ ایک بولڈ اور اپنے حقوق کے لئے ڈٹ جانے والی میرب جب ایسی سیچویشن میں پھنستی ہے کہ اس کا ایک ناپسندیدہ مرد سے بزور نکاح کروایا جارہا ہے تو وہ ایک معاہدہ سائن کرواتی ہے جس کے تحت اس کاشوہر اپنا حق زوجیت اس وقت تک استعمال نہیں کر سکتا جب تک بیوی اسے اجازت نہ دے- استغر اللہ ! مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ گھٹیا سوچ رائٹر کے دماغ میں آئی کیسے؟ اس کے لئے رائٹر کا انٹرویو دیکھا تو علم ہواکہ انہوں نے یہ درست سمجھتے ہوئے لکھا ہے اور اس کے ذریعے شادی شدہ جوڑوں کو عورت کی حفاظت کی ایک راہ دکھائی ہے۔ اس گندی زہنیت پہ کیاتبصرہ کریں کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں۔

حیرت اس پر بھی ہوئی کہ چھیالیسویں قسط تک دیکھنے والوں کو تھپڑ مارنے پر توشدید اعتراض ہوا مگر اس گھٹیا دستاویز پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا گیا جس کو ہیروئن میرب ہر روز اپنے شوہر کے سامنے جتلاتی ہے۔ یہ کون سا نیا راستہ ہے جو قاضی، ولی، گواہوں اور سب سے بڑھ اللہ کے روبرو نکاح جیسے مقدس، شرعی اور قانونی بندھن میں بندھنے والے جوڑوں کو دکھلایا جا رہا ہے ؟ جو حق خود خدا نے دیا ہے اسے کوئی عورت سلب کر سکتی ہے نہ ہی مرد ۔ جس شریعت کے مطابق نکاح قائم کیا گیا ہے اسی شریعت کے مطابق اگر شوہر حق زوجیت ادا نہ کرے تو بیوی چار ماہ انتظار کرنے کے بعد عدالت سے خلع کے لئے رجوع کرنے کا پورا حق رکھتی ہے اور اسی طرح بیوی حق دینے سے بلا جواز انکار کرے تو شوہر اسے سمجھانےبجھانے کے بعد طلاق دینے کا آخری فیصلہ کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔ ایسی کوئی گنجائش ہمارے دین میں موجود نہیں ہے کہ بیوی کی طرف سے پابندی لگادی جائے تو پھر شوہر کے لئے اپنا حق استعمال کرنا کوئی ناجائز فعل یا غیر اخلاقی حرکت سمجھا جائے گا ۔

ایک سین میں ہیروئن کا باپ کہتا ہے کہ میں نے میرب کی تربیت اس طرح کی ہے کہ وہ غلط صحیح کو پہچان سکے اور حق کے ساتھ کھڑی ہو سکے۔ واہ بھئی واہ کیا درست اور غلط کی پہچان ہے میرب کو۔ مثلاً شوہر سے مسلسل بد اخلاقی، بد تمیز ی، حق زوجیت سے انکار، آشنا کے اصرار پر اپنی گاڑی سے خود اتر کے اس کی گاڑی میں بیٹھ کراس کے گھر جانا وغیرہ

سینتالیسویں قسط میں شادی شدہ میرب کا اپنے شوہر کے ساتھ جنسی تعلق قائم ہونا دکھلایا جانا تھا جس کا پرومو بھی چل گیا تھالیکن جس نام کے ساتھ اس مقدس اور پاک عمل کو جوڑا جارہا ہے اس لفظ کو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہماری خوش فہمی ہےکہ ناظرین کے شور مچانے پہ شائد کچھ تھوڑی شرم پروڈیوسر صاحب کو بھی آگئی اور انہوں نے سین کٹ کردئیے۔ اس مہربانی پہ پروڈکشن ٹیم کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے ۔ لیکن جو وائس اوور چلایا گیا وہ سین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اور نتیجتا میرب ایک ایسا کردار ثابت ہوئی جو کہ شائدسمجھ سے عاری ہے کہ حیا کی نیچر اور سازشوں کو ہزار بار پہچاننے کے باوجود شوہر پرنہیں اسی جھوٹی حیا کے جملوں پر یقین کرتی ہے، شوہر کے ساتھ تعلق قائم کرنے کو اپنی ہار سمجھتی ہے اور اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے گھر چھوڑ دیتی ہے۔ غرض پورے ڈرامے میں جتنے جھول تھے ان سب نے مل کر سینتالیسویں قسط میں پورے کے پورےپلاٹ کو ہی تار تار کردیا۔

آخر میں اس ڈرامے کی ٹیم سے گزارش کرتی ہوں کہ خدا لئے خدا کے احکامات اور اسکی بنائی ہوئی بڑی بڑی حدود میں اپنے ناپاکارادوں کے ساتھ داخل ہونے سے بچئیے اور ڈرئیے اس بات سے کہ کل اگر آپ کی اور میری آنے والی نسل ایسے غلیظ فتنوں میں گرفتارہو گئی جو آپ دن رات اسکرین پر دکھا کر کروڑوں روپے بنا رہے ہیں اور ہم دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں تو کل ہم خود سر پیٹ رہےہوں گے۔ اور اپنے خاندانی نظام اور اس کے تقدس کو تارتار کرنے والے اور کوئی ہیں ہم خود ہوں گے۔ کچھ نیا دکھانے کا نعرہ لگا کرآپ تہذیب و اخلاقیات کی دھجیاں بکھیریں گے تو نہ اب اور نہ ہی آئندہ یہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے گا۔ اور یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ آج آپ سارے میڈیا والوں کا دعوہ غلط ثابت ہوا کہ لوگ تو یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ سازشیں، تھپڑ، گالیاں، بے حیائی اور خدابے خوفی کے مناظر، کم از کم سینتالیسویں گھسی پٹی قسط نے یہ دعوہ تو غلط ثابت کردیا اب آپ لکھتے ہوئے کئی بار سوچیں گےکہ کہیں یہ کچھ نیا کے چکر میں لکھا گیا ہم پہ الٹا ہی نہ پڑ جائے۔