پانی کا تحفظ

محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے اور اس حوالے سے کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی تکنیکی اختراعات شامل ہیں۔ چین کی جانب سے پانی کے مزید معقول استعمال اور اس قیمتی نعمت کے زیاں کو روکنے کے ساتھ ساتھ، گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھی نمایاں کوششیں کی گئی ہیں۔ ملک نے عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد میں سے دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں بارہ لاکھ سے زائد افراد کو دریاؤں اور جھیلوں کے سربراہوں کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، تاکہ ملک میں پانی کے ذخائر کے ماحولیاتی تحفظ سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور مقامی حالات کے مطابق آبی آلودگی سے نمٹنے اور آبی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے درست اقدامات کیے جا سکیں۔ علاوہ ازیں، چین نے کچھ علاقوں میں مٹی کے کٹاؤ اور زمینی پانی کے بے تحاشہ استعمال جیسے مسائل کو حل کرنے میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ آبی زخائر کو بحال کیا گیا ہے۔

انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے چین کی جانب سے حالیہ دنوں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پانی کے قومی نیٹ ورک کی تعمیر میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کرے گا۔اس حوالے سے مرکزی بجٹ میں پانی کے نیٹ ورک کی تعمیر کے منصوبوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک مقصد سیلاب کی روک تھام اور اناج کی پیداوار کے حوالے سے ملک کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا بھی ہے۔اس ضمن میں مقامی حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ تعمیری منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں اور متعلقہ منصوبوں کے ٹھوس نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔

چینی حکام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ مارکیٹ پر مبنی اور قانون پر مبنی اصول کی پیروی کرتے ہوئے، ہر قسم کے سرمایہ کاروں بالخصوص نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ تعمیراتی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوں۔چین نے اس حوالے سے ابھی حال ہی میں 2021تا2035 کی مدت کے دوران پانی کے قومی نیٹ ورک کی تعمیر کے لئے ایک رہنما اصول جاری کیا ہے، جس پر عمل درآمد کے دوران آبی سلامتی کے تحفظ کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔گائیڈ لائن میں متعدد طویل مدتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں، جن میں پانی کے قومی نیٹ ورک کی عملی تشکیل، صوبائی، میونسپل اور کاؤنٹی کی سطح پر پانی کے نیٹ ورک بنانا، اور قومی آبی تحفظ کے نظام کو فروغ دینا شامل ہے جو سوشلسٹ جدیدکاری کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

وسیع تناظر میں گزشتہ ایک دہائی میں چین میں آبی وسائل کی بقا اور تحفظ کے سلسلے میں تاریخی کامیابیوں کے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔چین نے اس دوران، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے موئثر اقدامات اپنانے اور آبی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ہمہ جہت نظام تشکیل دیا ہے۔آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پاتے ہوئے اس نظام کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں طاس پر مبنی روک تھام کے نظام میں مسلسل بہتری، قبل از وقت انتباہی اقدامات، مشقوں اور پیشگی منصوبہ بندی کی مضبوطی اور پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے کو سائنسی اور درست طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے بڑے سیلابوں پر قابو پایا ہے۔ چین اس وقت ایک محفوظ، موثر، سبز اور منظم پانی کے نظام کی تعمیر کو آگے بڑھا رہا ہے، تحفظ آب منصوبوں سے پانی کی فراہمی کی مجموعی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ملک نے پانی کے تحفظ کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کو تیزی سے وسعت دی ہے اور گزشتہ دہائی میں تقریباً 966 بلین امریکی ڈالر کی جامع سرمایہ کاری کی گئی ہے جو پچھلے 10 سالوں کے مقابلے میں پانچ گنا زائد ہے۔اس سرمایہ کاری نے بڑے دریاؤں کے طاسوں میں سیلاب سے بچاؤ کے کلیدی منصوبوں اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے دریاؤں میں پانی کے انتظام کے امور میں مدد کی ہے، آبی ذخائر سے متعلق خطرات میں خاطر خواہ کمی اور آبی وسائل کی مضبوطی میں سہولت فراہم کی ہے.

اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں پینے کے محفوظ پانی کا دیرینہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں 28 کروڑ سے زائد دیہی باشندوں کے لیے نلکے کے پانی کی رسائی کی شرح 80 فیصد سے زائد ہو چکی ہے، اور صاف پینے کے پانی کا مسئلہ جو کروڑوں کسانوں کو نسلوں سے درپیش تھا، تاریخی طور پر حل ہو چکا ہے۔ چین کے یہ اقدامات پاکستان سمیت دنیا کے ایسے تمام ترقی پزیر ممالک کے لیے بھی قابل تقلید ہیں جہاں سیلاب سے سالانہ نقصانات ایک معمول ہیں، یقیناً عملی اقدامات سے ہی سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ ممکن ہے۔