افہام و تفہیم سے مسائل کا حل

بعض لوگ دشمنی میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ مخالف کو تکلیف دینے میں انسانیت کی تمام حدیں پار کرلیتےہیں ہیں۔ جی ہاں میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں اور آپ میں سے اکثریت میری بات کی تائید بھی کریں گے ایسے لوگوں کی مثالیں ہمارے اس پاس موجود ہیں جنہیں دیکھ کر حساس لوگ بے چین ہوجاتے ہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے جیسا کہ ارشد کے اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے۔

ارشد کی شادی اس کی برادری کی لڑکی نگینہ سے ہوئی تو سب حیران رہ گئے کیونکہ نگینہ گرچہ ارشد کی ہم عمر اور مناسب شکل و صورت کی مالک تھی لیکن اعلی تعلیم یافتہ اور امیر باپ کی بیٹی تھی جبکہ دوسری طرف ارشد ایک درمیانی فیملی کا اور معمولی ملازمت کرنے والا نوجوان تھا۔

ظاہر ہے اس بات نے سب کو حیران کر دیا لیکن اس بے جوڑ شادی کے نتائج چند ماہ میں ہی سامنے آنے لگے دونوں میاں بیوی میں معمولی معمولی بات پر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے، نگینہ کو گھر یا گھر داری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی شام کو دیر سے دفتر سے اس کی واپسی ہوتی ساس نندوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا ہوٹل سے کچھ منگوا کر پیٹ بھر لیا چھ ماہ کے اندر ہی وہ شوہر کو لیکر الگ گھر میں منتقل ہوگئی لیکن اس کے باوجود دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے گئے آخر بیوی نے اس پر عدالت میں مختلف پرچے کٹوائے کہ شوہر مجھ پر ظلم کرتاہے اس نے میرا چالیس پچاس لاکھ روپے کا جہیز ہتھیا لیا ہے، نہ صرف شوہر پر بلکہ بیوہ ساس کو بھی کورٹ کچہری میں گھسیٹ لیا، نگینہ اثر رسوخ والی اور ایک دولت مند لڑکی ہے۔ اس کیس میں اس نے اپنے تمام اثر و رسوخ استعمال کیے۔ اسکی بیوہ بیمار ساس جو دل کے عارضے میں مبتلا ہے اس صورت حال میں سوائے آنسوؤں اور اپنی اولاد کے لئے دعاؤں کے اس کے پاس کچھ نہیں۔

اس اذیت ناک واقعہ کا مجھ سے کسی نے تذکرہ کیا تومجھے انتہائی افسوس ہوا مجھے نہیں معلوم کہ کس کا قصور زیادہ ہے لیکن اگر شوہر بھی اس کے لڑنے جھگڑے پر لڑتا ہے یا اس کی زیادتی پر شور مچآتا ہے تو یہ گناہ اتنا گھمبیر نہیں کہ بیوی نے شوہر کے ساتھ ساتھ ساس کو بھی اپنی دشمنی میں گھسیٹا ہے جبکہ ایسے گھریلو معاملات میں خصوصاً عزت دار لوگ آپس میں بزرگوں کو درمیان میں لاکر مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں اور میرے نقطہ نظر میں معاف کرنا افضل نیکی ہے جبکہ اس سلسلے میں زیادہ تر لوگوں کی نظر میں لڑکی زیادہ قصور وار ہے لیکن میں ایک غیر جانب دار کی حیثیت سے صرف اتنا کہوں گی کہ انسان درگزر اور افہام و تفہیم سے اپنے بہت سے مسائل حل کرنے کا اہل ہے۔ نفرت اور دشمنی میں شدید اور انتہائی قدم دوسرے کے ساتھ اپنی پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے اور اللہ رب العالمین ایسے موقعوں پر لوگوں کو تحمل مزاجی کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔