لیڈر ہو تو ایسا

 

انسان کو زندگی تو ایک ہی بار ملتی ہے۔

اس زندگی کو بچانے کے لیے اللہ پاک نے فرمایا ! اگر حرام کا لقمہ کھا کر اسے بچا سکتےہو تو جان کو بچا لو مگر اللہ سے ڈرتے رہو۔

مگر جب کسی کو پیسے دے کر کسی کی جان لینے کو کہا جائےتو مارنے والا یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جب مارنا چاہتا ہے تو کسی بھی بم بلاسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب بچانا چاہتا ہے تو بارود بھی کوئی کام نہیں کر سکتے،یعنی بچانے والا مارنے والے سے بڑا ہوتا ہے اور یہاں وہی مثال بڑی زبردست رہی کہ جو کسی کے لئے گڑھا کھودتا ہے خود ہی اس میں گرتا ہے، اللہ نے تمام چال بازوں کی چال بازیاں انہیں کے اوپر ڈال دیں اور تمام مجاہدین اسلام کو بحافظت اپنے مقام پر پہنچا دیا۔

سوچتی ہوں !

اگر یہاں اس مردمجاہد کی جگہ کوئی اور لیڈرہوتا، تو ملک کا کیا حال ہوتا، جو لوگ اپنے لیڈر کی گرفتاری پر اتنے اشتعال میں آئے کہ ملک کو جلاؤ گھیراؤ اور تباہی کا ایک گھر بنا دیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا جس ملک کو ہم تباہ کر رہے ہیں، وہ ہمارا اپنا ہی پیارا پاکستان ہے جو ہماری پہچان ہے

جس کی کرسی کو حاصل کرنے کے لیے سب حکمران لڑ لڑ کر لوگوں کی تقسیم کر رہےہیں اور دن رات اس کو لوٹنے کے نئے نئے پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں، کسی بے عقل نے یہ تک نہیں سوچا کہ جب پاکستان کی پہچان اس کے نوادرات اس کے شہیدوں کی پہچان ان کے مجسمے اور طیارے ہماری میتیں اور مریضوں کو لانے لے جانے والی ایمبولنسیں گاڑیاں ٹرک، ہم جلا دیں گے۔ تو دشمن جو ہر وقت ہماری تاک لگائے بیٹھا ہے، کیسا خوش ہو گا۔

کہ جو کام دشمن اور کفار نہیں کر سکے وہ کام ان لیڈروں کے عاشقان نے خود ہی کر دیا اور لیڈروں کا حال یہ ہے،کہ ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ کون کون ان سے پیار کی لسٹوں میں موجود ہے،اگر یہ عاشقان لیڈر سب کے سب ان لیڈروں کی خاطر سولیوں پر چڑھا دیئے جاٸیں تو ان لیڈروں کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگے۔

اگر ان لیڈروں کے ساتھ یہ واقعہ رونما ہو جاتا کہ بالکل عین ان کی گاڑی بلکہ جس ساٸیڈ پر ان لیڈروں کی سیٹ ہو اور بالکل ان کے پاس پہنچ کر خود کش حملہ ہو جاتا اور وہ قدرت رب سے بچ جاتے اور ان کو خراش بھی نہ آتی تو سوچیں ملک کے کیا حالات ہوتے، کیا یہ اپنے بچنے مگر موت کو قریب سے دیکھنے پر نوافل ادا کرتے یا پورے ملک کو برباد کر دیتے؟

کیا جس جلسے میں ان کو جانا ہوتاوہ بڑے پر امن طریقے سے جلسے میں شرکت کرتے؟ اور جلسے سے خطاب بھی کرتے؟ یا الٹے پاؤں جان بچا کر بھاگ جاتے ؟ جلسے میں شریک سب شرکا۶ پر الزامات کی بوچھاڑ کرواتے اور جلسے کو تباہ برباد کر دیتے ؟ اور پھر کتنے دن تک ملک میں تباہیوں کے دروازے کھل جاتے؟

یہی معاملہ تو ہوا !

جب 18 مٸ کو ژوب بلوچستان میں ہمارے لیڈر ایک جلسے میں خطاب کے لیے گئے تو راستے میں ان کی گاڑی بلکہ جس سایڈ پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب تشریف فرما تھے اسی سایڈ پر بالکل ان کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا ڈراٸیور نے گاڑی تیز کی مگر امیر جماعت نے کہا ! آرام سے اپنی رفتار سے چلناہے، ہم جماعت اسلامی والے ہیں، اللہ پر بھروسا رکھتے ہیں، اپنے کارکنان کے ساتھ ہی رہنا ہے۔

حالانکہ دیکھا جائے تو اچانک موت کو دیکھ کر امیر جماعت گھبرائے نہیں، جب سوچ اور تصور سے ہٹ کر وہ کچھ اور باتوں پر کوئی ہدایت دے رہے ہوں گے۔ یا جانے کن کاموں کوسوچ رہے ہوں، تو اچانک بلاسٹ سے چونکنا، اور موت کو سامنے دیکھ کر اپنے آپ پر قابو میں رکھنا اور ڈراٸیور کو بھی حوصلہ دینا کسی مرد مجاہد کا کام ہی ہو سکتا ہے۔

یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح فوری پھیل گیا، کمشنر سمیت سب انتظامیہ نے کہا، جلسہ عام ملتوی کر دیتےہیں تو امیر جماعت نے کہا جلسہ ضرورہو گا اور میں خود شرکت کروں گا۔ یہ ثابت قدمی بھی دین کا حصہ ہے۔

اب سوچیں !

ہے کوئی ایسا لیڈر جو ایسی ہدایات دے، امیر جماعت نےعملی ثبوت دیا۔ کہ جماعت جو کہتی ہے وہ کر کے دکھاتی ہے، اور جب کارکنان پر مشکل آتی ہے تو اپنی جان بچا کر بھاگ نہیں جاتے اور عقل رکھنے والوں کو یہ بات بھی سمجھ میں آنی چاہیے کہ جس طرح ملک کے حالات چل رہے ہیں تو کل کو اگر بھوکا رہنا پڑا تو ہمارا لیڈر ہمارے ساتھ بھوک کاٹے گا،اگر ملک میں افراتفری ہوئی تو ہمارا لیڈر اپنے اثاثےاور بچوں کو لے کر باہر کےملکوں کی طرف رخ نہیں کرے گا، بلکہ پوری حکمت عملی سے ملک کو ہر طرح کے حالات سے نکالے گا

ملک پر کسی دشمن کی بری نظر نہیں پڑنے دے گا، آج مجھے اپنی جماعت پر فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میں ایسی جماعت کے قافلے کی ساتھی ہوں، جس قافلے کا امیر نیک ،شریف، امانتدار اور اللہ پر توکل رکھنے والا اور تقوی پر پورا اترتا ہے۔ اور الحَمْدُ ِلله اس جماعت میں موجود ساری قیادت ایک دوسرے کی دست وبازو ہے

اللہ پاک جی ! جماعت اسلامی کو قیامت تک سلامت رکھنا، پاکستان میں دین اسلام بلند کرنا، پاکستان کو ہر بری نظر سے بچا نا، اور ہمارے لیڈر کو اپنے حفظ وامان میں رکھنا۔ آمین۔