چلو بچپن میں چلتے ہیں

بچپن کسی بھی انسان کی زندگی کا سنہری دور ہوتا ہے۔ جسے وہ بھلانے سے قاصر ہوتا ہے۔ بچپن کی یادوں کے پلندے ہمیشہ ہماری روح سے لپٹے رہتے ہیں۔ یہ یادوں کی وہ گھٹڑی ہے جسے ہم تادم مرگ سر پر رکھے سفرِ زیست میں رواں رہتے ہیں۔ بچپن وہ دورِ حسین ہے کہ جس میں انسان دنیا کے غم و اندوہ سے بے فکر و آزاد ہوتا ہے۔ غموں کی مدت چند گھنٹے ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں پہاڑ ہوتی ہیں۔

ولیم شیکسپئیر نے انسان کی زندگی کو سات مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ ان تمام مراحل میں سے دوسرا اور تیسرا مرحلہ ہمیشہ میرا پسندیدہ رہا ہے۔ وہ مرحلے حسین یادوں کے ایسے مجموعے ہیں جن میں ہم نے بے شمار خوبصورت اور معصوم شرارتیں کی ہیں۔ شرارتوں کے بغیر بچپن ادھورا ہے۔ گویا بچپن شرارت کا دوسرا نام ہے۔ میرا بچپن بھی آزادی و بے فکری, خوشی و غمی, فراغت اور کچھ ہنسی مزاح کا امتزاج رہا ہے۔ کہنے کو تو بچپن ایک چھوٹا سا لفظ چار حروف کا مجموعہ ہے۔ مگر یہ اپنے اندر ایک پوری دنیا لیے ہوئے ہے۔

ہم نے بچپن میں والدین کے بے لوث پیار و محبت کے ساتھ ڈانٹ کا مزہ بھی چکھا۔ بچپن اپنے بہن بھائیوں کے سنگ گزرا۔ اُس حسین وقت میں اپنی شرارتوں سے کبھی بہنوں نے بھائیوں کی ناک میں دم کیا تو کبھی بھائیوں نے بہنوں کو لوہے کے چنے چبوائے۔ ہم اس صدی کی وہ آخری پیڑھی ہیں جس نے اپنے بچپن میں مٹی کے برتن اپنے ہاتھوں سے بنائے، مٹی کے چھوٹے چھوٹے گھروندے بنا کر اپنی گڑیوں کے لیے گاؤں کی بنیادیں رکھیں۔ ہم وہ آخری پیڑھی ہیں جس نے ہاتھوں سے کپڑے کی بنی گڑیوں سے کھیلا ہے۔ ہم وہ آخری پیڑھی ہیں جس نے اپنی دادیوں سے راجاؤں مہاراجاؤں کی کہانیاں بڑے شوق سے سنیں کہ ذہن پر اب تک نقش ہیں۔ ہم وہ آخری پیڑھی ہیں جس کا بچپن اسمارٹ فون کی نذر نا ہوا۔ ہم وہ آخری پیڑھی ہیں جو بچپن میں دورِ حاضر کے عام گناہوں سے نا آشنا تھی۔ ہم شاید وہ آخری پیڑھی ہیں جو بچپن میں دس روپے عیدی ملنے پر بھی خوشی سے جھومتی تھی۔ اپنی غلطی پر ماں باپ سے ڈرنے والی بھی ہم شاید آخری پیڑھی میں شامل ہیں۔

بچپن میں کھیل کھیل میں ہم نے تقریباً ہر شعبہ اپنایا ہے۔ ڈاکٹر بنے تو مریض بھائیوں کو بنایا۔ اپنا دفتر کھولا تو اپنا پی اے بھائیوں کو بنایا۔ اسکول اساتذہ بنے تو اسکول کلرک بھائی بنا۔ طلباء؟ نہیں! وہ تو ہمارا فرنیچر ہوا کرتا تھا۔ جس کی ڈنڈے سے خوب پٹائی ہوا کرتی تھی۔ اور تو اور ہم نے اپنا بینک بھی کھولا اور پھر اس کا گارڈ بھی بھائی کو بنایا۔ بچپن میں دنیا جہان کے شاپر اکٹھے کر کے کریانہ اسٹور بھی کھولا۔ بجری کو دال چنا اور ریت کو مصالحہ جات بنا کر بیچا۔ جوتوں والی پالش کی ڈبیا کو ہم نے ترازو بنایا۔ مجھے آج بھی وہ پانچ لیٹر کی بالٹی یاد ہے جو پانی سے بھری ہوتی تھی۔ ہم میں سے ایک شخص دودھ والا ہوا کرتا اور باقی سب قطار میں لگ کر دودھ لیا کرتے۔ گاؤں میں موجود تمام بیریوں سے بیر توڑ کر ایک مخصوص جگہ بیٹھ کر کھانا آج بھی یاد ہےمجھے۔ ہم نے لوگوں کے گھروں کی گھنٹیاں بجا کر دوڑیں بھی لگائی ہیں۔ اسکول کا کام مکمل نا ہونے کی صورت میں اساتذہ سے کاپی گھر رہ جانے کا بہانہ بھی کیا۔ رات کے وقت چاند کو دیکھتے ہوئے چلتے تو یہ گمان ہوتا کہ چاند بھی ہمارے ساتھ چل رہا۔ کبھی لڑائی ہوتی تو اگلے ہی دن صلح ہو جاتی۔ دلوں میں کدورت نہ تھی۔

گرمیوں کی چھٹیوں کا بے صبری سے انتظار ہوتا کہ کب ہوں اور نانی کے گھر جائیں۔ اسکول فری بچپن کا خواب تو کبھی پورا نہ ہو پایا۔ لہذا گرمیوں کی چھٹیاں جیسے ہماری زندگی کا کل اثاثہ ہوتیں۔ ہم نے عینک والا جن ڈرامے کی ہر قسط کا پورا ہفتہ انتظار کیا۔ ہم نے جنوں اور پریوں کی کہانیوں والے ڈائجسٹ بھی پڑھے۔ وہ بادشاہ وزیر کی پرچیاں کھیلنا، کاغذ کے جہاز اڑانا اور کشتیاں پانی میں چھوڑنا اب بھی یادوں کا حصہ ہیں۔ گھر میں میں ٹیلی فون کی سہولت تھی۔ رانگ نمبر ملا کر لوگوں کو تنگ کرنا ہمارا خفیہ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ اور بل آنے پر ابا جان کا غصہ آسمان کو چھوتا کہ آخر اتنی کالیں ملاتا کون جو اتنا بل آتا ہے۔ ایک دن تو ہماری شرارتوں سے متاثرہ خاتون نے دوبارہ فون کر ڈالا جو ہماری بد قسمتی کہ ابا جان نے اٹھا لیا پھر کیا تھا ابا جان کے بھاری بھاری الفاظ والی ڈانٹ اور ہم معصوم مجرم۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ایسا ہوا تو ٹانگیں ٹوٹیں گی تم لوگوں کی۔ ہم بھی ان کی پہلی دھمکی سے ہی ڈر گئے اور دوبارہ ایسا کرنے کی جرات نہ کی۔ اب بھی ہم ان شرارتوں کو یاد کر کے محظوظ ہوتے ہیں۔

اپنی کسی شرارت پر جیسے کوئی ملال نہ ہو۔ بچپن میں آزادی کا ایک خوبصورت احساس تھا۔ دورِ حاضر کے بچے تمام تر آسائشات سے گھرے ہوئے ہونے کے باوجود اس احساس سے محروم ہیں جو ہمیں میسر تھا۔ ہمارے پاس کھیلنے کے لیے وقت ہی وقت تھا ۔ مگر آج کا بچپن وقت کی کمی سے دو چار ہے۔ اب تو ہمارے بچپن کی تمام روایتیں معدوم ہوئی جاتی ہیں۔ تب زندگی بہت سادہ تھی۔ اب وہ چین اور بے فکری میسر نہیں۔ زندگی بھاگ دوڑ، افراتفری اور غمِ روزگار سے پُر ہے۔ اب تو خونی رشتوں میں بھی وہ خلوص و محبت نہ رہی۔ خود کو اپنی بجائے دوسروں کی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اب تو لبوں پر وہ کاش رہ گیا کہ بچپن جینے کو دوبارہ ملے۔

اے بچپن تو کہاں کھو گیا ہے

یا کہہ دے تو اب بڑا ہو گیا ہے