خوب سے خوب تر کی تلاش‎‎

کچھ خواتین نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا رشتوں کی تلاش میں صرف لڑکی والوں کے ہی زیادہ نخرے ہوتے ہیں کیا لڑکے والوں کا کوئی قصور نہیں ہوتاہے؟ میری ان بہنوں نے غلط نہیں کہا اس سلسلے میں لڑکے والے بھی بڑے نغرے دکھاتے ہیں اور لڑکی یا اس کے گھر والوں میں سے کیڑے نکالتے ہیں لیکن میرا یہ تجزیہ ہے اور یقیناً آپ میں سے بھی زیادہ تر میری بات سے متفق ہوں گے کہ آج سے چند دھائیاں پہلے رشتے تلاش کرنے میں لڑکے والوں کے ہی زیادہ نخرے ہوتے تھے بہت کم ایسا دیکھا جاتا تھا کہ لڑکی والوں کی طرف سے مطالبات ہوں،

لڑکی والوں کی طرف سے مطالبات شاذونادر نظر آتے تھے جبکہ فی زمانہ اس سلسلے میں لڑکی والوں کے مطالبات اور نخرے بھی کم نہیں، ہاں دونوں طرف سے جائز مطالبات دونوں کا حق ہے، پہلی ترجیح تو زوج کا نیک ہونا لازمی امر ہے جسکی طرف آج کل کم ہی توجہ دی جاتی ہے، پھر میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ اپنے برابری والے طبقے میں شادی بیاہ کرنے سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن آج کل ہرکوئی اونچی اڑان پر جانا چاہتا ہے پہلے لڑکا بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتا تو ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ لڑکی بھی اعلی تعلیم یافتہ ہو بلکہ لڑکی اور اسکے خاندان کی دوسری خصوصیات کو ترجیح دی جاتی تھی، اسی طرح لڑکی والے بھی اسی جیز کو اہمیت دیتے تھے۔

میری نانی جسے ہم نے انکے بڑھاپے میں ہی دیکھا تھا وہ اس وقت بھی بہت خوبصورت لگتی تھی ہم نے اپنے نانا کو نہیں دیکھا تھا جسکے بارے میں سب کہتے تھے کہ وہ نانی سے سولہ سترہ سال بڑے تھے اور نانی سے انکی تیسری شادی بھی تھی لیکن ہمارے نانا ایک نیک اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے نانی کے والدین نے بڑی خوشی سے یہ شادی کروائی تھی، جبکہ اس وقت نانا کے معاشی حالات اتنے مستحکم نہیں تھے لیکن نانی نے نانا کی رفاقت میں زندگی کے بہترین دن گزارے۔ ایک اور اہم بات جو ہماری اماں نے ہمارے گوش گزار کی وہ یہ کہ مائیں بیٹیوں کی شادی کے بعد انکی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرتی تھیں، آج چاروں طرف کے حالات دیکھ کر سمجھدار والدین کی یہی رائے ہے کہ لڑکے چاہیے کتنی عمر ہوجائے انہیں اچھی بیوی ملنے میں دیر نہیں لگتی لیکن ہمارے اس معاشرے میں لڑکی کی ڈھلتی عمر میں نہ صرف تنقید کی جاتی ہے بلکہ پھر انہیں اچھا رشتہ ملنا مشکل ہوجاتا ہے یعنی خوب سے خوب تر کی تلاش پر سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتاہے، بیٹی ہو یا بیٹا یقیناً والدین انکی بھلائی کے خواہاں ہوتے ہیں اس سلسلے میں اسلامی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا بہترین حکمت عملی ہے اسی حکمت عملی کی وجہ سے آج سے چند دھائیاں پہلے لڑکے اور لڑکیوں کی شادی انکی صحیح عمر میں ہوجاتی تھی یہی ہمارے دین کی تعلیم بھی ہے آج ہم نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے جو اصول متعین کیے ہیں انہوں نے ہماری زندگی میں مشکلات پیدا کردیں ہیں۔

کئی گھرانوں میں لڑکی والوں اور لڑکے والوں کے ان مطالبات کی وجه سے بیٹیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ جبکہ انہی ترجیحات کی وجہ سے طلاق کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے گھریلو مسائل بھی ہماری اپنی روش کی وجہ سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں دانائی کے ساتھ کہیں نہ کہیں سمجھوتے کی گنجائش نکالنا چاہیئے۔