ماں ایک مضبوط حِصار‎‎

ماں وہ خوبصورت اور لطیف لفظ ہے جسکی ادائیگی میں ہی اسکا حُسن اور خوبصورتی پوشیدہ ہے، ماں لفظ جس کی ادائیگی سے ہی اسکی لطافت اپنائیت خوبصورتی نرمی محبت پیار عیاں ہو جاتا ہے اس تین حروف پر مبنی ایک لفظ ماں سے جو رشتہ بنتا ہے وہ رشتہ بہت اہم ہوتا ہے اس رشتے کو اللہ نے انسان سے جڑنے والے ہر رشتے کے ماتھے کا جھومر بنایا ہے، مقدم رکھا ہے، ہر رشتے کی اپنی اہمیت اور اپنا مقام ہے، لیکن ماں سے بننے والا رشتہ اور ماں کی محبت اپنائیت لازوال خلوص سے بڑھ کر کوئی رشتہ اہم نہیں۔

اللہ نے انسان کی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز، کامیابی، جس کے حصول کے لےلئے انسان جد وجہد کرتا ہے، تگ و دو کرتاجہد مسلسل سے اسےسے وہ مطمئن ہوتا ہے کہ وہ کامیاب ٹھہرے گا انسان کی سب سے بڑی کامیابی ماں کے قدموں میں رکھ دی ہے۔

ماں کے لئے دن مخصوص کر کے منانا چاہیئے یا نہیں اس بات سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے کہ ماں کی اہمیت تو ہر روز ہے ہر روز کے 24 گھنٹوں میں ہر گھنٹے کے ہر منٹ اور ہر منٹ کے ہر سیکنڈ میں ہے۔ جب کوئی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے یا مصائب کا سامنا ہوتو ہم ہر اس فرد سے دعا کا کہتے ہیں جسے ہم اس قابل سمجھتے ہیں کہ اسکی دعا اللہ کے حضور قبول ہوسکتی ہے۔ لیکن اپنی ماں کوجو اپنے گھر میں موجود ہے اسے دعا کا نہیں کہتے حالانکہ ماں کی دعا توسیدھی عرش پر جاتی ہے.اپنے والدین جو گھر میں موجود ہیں ان کے ساتھ حُسن سلوک کیا جائے نا کیا جائے پھر بھی ان کی دعائیں اپنے بچوں کے لئےمصائب پرہشانیوں دکھوں تکلیفوں میں حصار بنائے رکھتی ہیں،ان کی دعاوں سے بڑھ کر اور کس کی دعاوں میں تاثیر ہوگی۔

نبی محترم ﷺ نے اپنی رضاعی ماں کا استقبال کیسے کیا جب وہ اپ سے ملنے ائین تو اپ ان کے لئیے کھڑے ہوئے اقا دو جہاں نے میری میری ماں کہہ کر ان سے لپٹے اپنی چادر مبارک ان کے بیھٹنے کے لئے بچھائی جب وہ رخصت ہوئیں تو اللہ کے رسول نے انہیں بڑی محبت اور احترام کے ساتھ رخصت کیا، انہیں تحائف بھی ساتھ میں دئیے۔ اپنے والدین کو اُف نہ کہو ۔ ان پر احسان کرو۔ لفظ اُف بھی والدین کے سامنے استعمال کرنے سے منع کیا گیا کجا کہ والدین سے اونچی اواز میں بات کی جائے انہیں گالی گلوچ اور ازیت دینے کی نوبت اجائے اپنی دنیاوی زندگی میں تو برکت ختم کروا ہی لیتا ہے اخرت کےلئے ذلت ورسوائی کا بیج بو دیتا ہے۔

ماں جو بچے کو 9ماہ اپنی کوکھ میں رکھتی ہے اسکا بوجھ اٹھاتی ہے اسکے ہر روز بڑھتے بوجھ سے اسکی انکھوں کی چمک اور بڑھ جاتی ہے، اسے دنیا میں لانے کے لئے اپنی رنگینیوں، پُر لطف زندگی اور پُر اسائش لمحات کو اپنے بچے کے لئے قربان کرتی ہے، اسکے بوجھ کو خوشی خوشی اٹھاتی ہے ہر لمحہ اسکے لئے دُعاگو رہتی ہے ہر لمحہ اس پر واری جاتی ہے، وہ اپنی گہری اور میٹھی نیند بھی اپنے بچے پر وار دیتی ہے وہ جو سر پر ڈھول پیٹنے پر بھی نہیں جاگتی اپنے بچے کے لئے راتوں کو جاگتی ہے اسے بھوک گرمی سردی کی شدت سے بچانے فکر میں اپنے ارام کو تج دیتی ہے اسکے ہر لمحے کو اپنے دل ودماغ میں محفوظ کر لیتی ہے اسکے پہلے قدم اٹھانے سے لے کرتوتلی زبان میں پہلا لفظ ادا کر نے تک اسے ہر چیز یاد ہوتی ہے۔

ماں وہ مضبوط حصار ہے جس میں بچہ سب سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ جسمانی طور پر اگر ماں کمزور بھی ہوتو اپنے بچے حق کے لئے جابر اور ظالم کے سامنے بھی کھڑی ہوجاتی ہے اپنےبچے کو بچانے کے لئے اپنے بڑے طاقت ور کے سامنے بھی اس طرح میدان اترتی ہے کہ سامنے والا کمزور کے سامنے جھک جاتا ہے اپنے بچے کے تحفط کے لئے وہ اپنے اپکو داو پر لگانے سے گریز نہیں کرتی۔

اللہ کے رسول ﷺ نے اس لئے ماں باپ میں سے زیادہ حق ماں کا قرار دیا ہے۔ اپنی زندگی کے کسی فیصلے جو والدین نے کیا ہے انسان نا خوش ہو تو کیا والدین کو ذمہ دار قرار دے کر انے سر کو جھکایا جا سکتا ہے۔

والدین کبھی اپنےبچے کے لئے برا نہیں سوچتے ان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان کے فیصلوں کی وجہ سے بچے کے خواب ادھورے رہ گئے یا ان خوابوں کو جو اس نے اپنی انکھوں میں سجائے ہیں والدین کے فیصلوں کی نظر ہوجائیں۔ تو کیا والدین ان لمحوں کو واپس لاسکتے ہیں؟ اپنے والدین کی قدر کریں۔ ماں اللہ کا خوبصورت تحفہ ہے اگر تحفے کی قدر نہ کریں گے تو تحفہ دینے والے کو بھی ناقدری کرنے والے اچھے نہیں لگ سکتے۔