کراچی دہکتا ہوا آتش فشاں

 

کیا کراچی اتنا ہی بدقسمت ہے؟ میں اب اس شہر کی سڑکوں پر خود کو بہت غیر محفوظ سمجھتا ہوں، گھر سے نکلتے ہوئے، مجھے راستے کے وہ تمام پیچ وخم یاد آجاتے ہیں، جن سے گذر کر مجھے دفتر جانا اور واپس آنا ہے، مجھے راستے کے تمام گڑھے، ادھڑی ہوئی سڑک، زندہ انسانوں کو اپنے منہ میں ہڑپ کرنے والے اژدھوں کی طرح منہ کھولے گٹر، بہتے پانی، اڑتی دھول ایک ہول میں مبتلا کردیتی ہے، گاڑی چلانا اب بہت دشوار ہوگیا ہے، پیدل چلنا ممکن نہیں رہا، ہر طرف سے زناٹے بھرتی موٹر سائیکلیں، آپ کو کبھی بھی کہیں پر ڈھیر کرسکتی ہیں، کراچی کے مقابلے میں مجھے حیدرآباد بہت پرسکون لگتا ہے، میں اکثر تہواروں پر اس شہر میں جاکر اپنے آپ کو محفوظ پاتا ہوں۔ عید کی تعطیلات گزارنے کے بعد کراچی میں، میں نے اپنے ساتھی محمد نواز سے ان چھٹیوں کے بارے میں پوچھا، تو اس نے اداسی اور دکھ سے کہا میری عید تو میرے روم میٹ کے اچانک حادثے اور اس کی موت کے سوگ کی نظر ہوگئی۔ اس نے بتایا کہ چاند رات کو اس کے دوست عامر عباس شگری کا موٹر سائیکل پر اکسیڈینٹ ہوا، اور اسپتال میں کومے کی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوگیا، ابھی اس کی عمر صرف 22 سال تھی وہ اردو یونیورسٹی میں ماس کیمونیکیشن فائنل ایر کا طالب علم تھا، وہ گلگت کے پہاڑوں سے ایک بہتر مستقبل کے لیے کراچی آیا تھا، جہاں اس نے اپنی تعلیم اور روزگار کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔

عید تعطیلات میں کراچی والوں پر ایک قیامت گذر گئی، لیکن اس شہر کے حکمرانوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی، پورے رمضان میں ٹریفک پولیس بڑی تندہی اور جانفشانی سے ٹریفک چالان کرتی رہی، کروڑوں روپے کی رشوت وصول ہوئی، اور شہر سے پانچ دن ٹریفک پولیس سڑکوں سے غائب ہی رہی، گاؤں اور دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد چھٹیاں منانے اپنے گاؤں چلی جاتی ہے۔ ان 5 دن میں روڈ ایکسیڈینٹ میں 70 افراد ہلاک ہوئے۔ 4 ہزار 168 شہری ٹریفک حادثات میں اپنے ہاتھ پاؤں اور جسم کی ہڈیاں تڑوا بیٹھے۔ دو بڑے سرکاری اسپتالوں کے ریکارڈ کے مطابق 5 دن میں 1 ہزار سے زائد شہریوں کی ہڈیاں ٹوٹیں، 3218 ایکسیڈنٹ کیسز سول ٹراما سینٹر میں اور 950 کیسز جناح اسپتال میں درج ہوئے۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ اوور اسپیڈنگ اور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کانسٹیبلز کی عدم موجودگی تھی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جناح اسپتال نے بتایا کہ 60 اموات جناح اسپتال اور 10 اموات سول ٹراما سینٹر میں رپورٹ ہوئے۔ ڈاکٹر نوشین رؤف کے مطابق روڈ ایکسیڈنٹ میں زیادہ تر اموات موقع پر ہی ہوئیں اور زیادہ تر اموات سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ روڈ ایکسیڈنٹ کا زیادہ تر شکار ہونے والوں کی عمر 16 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ اب ان کا ماتم کون کرے، کس کو اس شہر کی فکر ہے، کون یہاں کے معاملات دیکھ رہا ہے، کون اس کے لیے جواب دہ ہے۔

سندھ میں کرپشن کا جن بوتل سے باہر ہے، اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لیے ہمیں آئندہ 30 برس درکار ہوں گے۔ لے کے رشوت پھنس گیا ہے۔ دے رشوت چھوٹ جا۔ سندھ میں کرپشن اور لوٹ مار کی انتہا ہے لیکن حکومت اور ملک کی حفاظت کے دعویداروں کو اس پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ سارے ملک میں موٹر وے بنے، اور خوب بنے، لاہور اسلام آباد موٹر وے کا توکیا کہنا، خوبصورت مناظر، جگہ جگہ موٹل، مساجد، شاپنگ سینٹر، ریسٹورینٹ، باغات پھول پودے، لیکن کراچی حیدرآباد تو موٹر وے کے نام پر ایک تہمت ہے، پورے ہائی وے پر کوئی پارک، رکنے کے لیے تفریحی مقام، سڑک کنارے درخت، سبزہ سرے سے موجود نہیں ہے، ایک جنگل بیابان ہے، جس پر ٹرک، ٹرالر، بسیں، اور اب تو موٹر سائیکل اور رکشا بھی دوڑتے نظر آتے ہیں، رات کی تاریکی میں سڑک پر دور دور تک روشنی کا انتظام نہیں ہے، اور ہائی وے پر لوگوں نے آمد رفت کے لیے درمیان سے رکاوٹوں کو توڑ دیا ہے۔ حیدرآباد سکھر موٹروے کرپشن کیس سندھ حکومت کی گڈ گورنس کا منہ چڑا رہا ہے، اس منصوبے میں چار ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے، جانے حیدرآباد کراچی کے منصوبے میں کتنی لوٹ مار ہوئی ہوگی۔ حیدر آباد موٹروے کرپشن کیس کا ملزم عاشق حسین پلی بارگین میں سوا ارب روپے واپس دینے کو تیار ہوگیا ہے۔ ایم 6 موٹروے میگا کرپشن کیس میں ملزم عاشق حسین نے ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو (نیب) کو پلی بارگین کےلیے درخواست دی ہے۔ درخواست میں ملزم عاشق حسین نے کہا کہ میری نشاندہی پر ہی نیب 636 ملین روپے کی ریکوری کرچکی ہے، یہ رقم مٹیاری اور نوشہروفیروز کو جاری ہونے والے فنڈز سے حاصل کیں تھی۔ ایم 6 موٹروے نوشہرو فیروز سیکشن میں پونے 4 ارب روپے کا غبن کیا گیا تھا جبکہ ایم 6 موٹروے مٹیاری سیکشن میں سوا 2 ارب روپوں کا غبن کیا گیا۔ اس ملزم کے سرپرست سب عیش کررہے ہیں۔ یہ سندھ ہے جہاں سندھی اس ظلم پر بھی خاموش ہیں۔ ان کا حق مارا جارہا ہے، ان کے سر پر قرض باندھے جارہے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے کی لوٹ مار جاری ہے، سندھ کے محکمہ تعلیم کا بھی بہت برا حال ہے، گھوسٹ اسکول ٹیچر، اسکولوں کے نام پر جعلی کاروبار، فرنیچر اور تعمیراتی ٹھیکوں میں لوٹ مار کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے۔

کراچی کی تباہی میں غیر کا کیا ذکر کریں، یہاں جو کچھ کیا ہے، اور جو ستم ڈھایا ہے، اس میں” اپنے” شامل ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے اس بارے میں دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے، اس جعلی اور فراڈ ڈیجیٹل مردم شماری پر بہت زبردست احتجاج کیا ہے، اور اس سارے ڈرامے کو بے نقاب کردیا ہے۔ جس کی پاداش میں ان پر عصبیت کا الزام لگایا جارہا ہے۔ دوسری جانب سرکاری مشینری اپنا کام کر رہی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ساتویں خانہ و مردم شماری میں اب تک کے اعداد و شمار کے تحت 23 کروڑ 90 لاکھ 17 ہزار 494 افراد کو شمار کیا جا چکا ہے۔ سندھ میں 5 کروڑ 48 لاکھ 58 ہزار 515 افراد کا شمار ہوچکا ہے جبکہ پنجاب میں11 کروڑ 68 لاکھ 27 ہزار 125 افراد کی گنتی کرلی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں 3 کروڑ 93 لاکھ 72 ہزار 462 افراد کو گن لیا گیا ہے اور بلوچستان میں 2 کروڑ 94 ہزار 659 افراد کا شمار ہوچکا ہے۔ لیکن کراچی کی مردم شماری ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں اب تک آبادی ایک کروڑ 78 لاکھ 19 ہزار 110 دکھائی جارہی ہے، سندھ کے گاؤں گوٹھوں کی آبادی میں سالانہ ڈیڑھ فیصد آبادی کا اضافہ دکھایا جا رہا ہے، یوں شہروں کی آبادی کم اور دیہاتوں کی آبادی زیادہ دکھائی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سالانہ ڈیڑھ فیصد گروتھ رکھنے والے تعلقہ اور تحصیلوں میں مردم شماری کو منجمند کرنے کے فیصلے کیخلاف وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی میدان میں آگئے ہیں۔ انہوں نےوزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو لکھا ہے کہ ” اگرہمارے تحفظات دور نہ کیے گئے تو مردم شماری کو مسترد کردیا جائے گا” کاش شاہ صاحب سندھ کے گاؤں دیہاتوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے مسئلہ پر بھی ایسا ہی دو ٹوک موقف اختیار کرتے۔ مراد علی شاہ نے احسن اقبال کو بذریعہ خط آگاہ کیا کہ ہمارے تحفظات نہیں سنے جارہے ہیں، تحفظات دور نہ ہوئے تو مردم شماری کے نتائج قابل قبول نہیں ہوں گے۔ کراچی کی آبادی کو پہلے کے مقابلے میں بھی کم دکھایا جارہا ہے، یہ دنیا کا واحد شہر ہے، جہاں آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا یہ موقف کراچی کی ترجمانی کرتا ہے کہ کراچی میں رہنے والے ہر شخص کو یہاں گنا جائے، یہاں رہنے والے سندھیوں، پختون، پنجابی، بلوچ و دیگر قومیں جو یہاں رہتی ہیں، انہیں یہیں شمار کیا جائے۔ ماضی میں کراچی کے ساتھ جو ناانصافی اور دھوکہ دہی کی گئی ہے، اگر آج اس کا سدباب نہ کیا گیا تو پھر کراچی ہمیشہ ایک دہکتا ہوا آتش فشاں بنا رہے گا۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔