معاف کر کے تو دیکھیں

ایسی شخصیت جسے ہر ایک سے شکایت ہو جس نے لوگوں میں سے بہت ہی کم کسی کی تعریف کی ہو کسی کو اچھا بتایا ہو زیادہ تر لوگوں کے بارے میں اس کی رائے خراب ہی ہو یہ بھی برا وہ بھی برا ،فلاں ایسا لوگ ایسے زمانہ ایسا،

ایسی شخصیات کہیں بھی ہوں رشتے داروں میں احباب میں تحریک میں بوجھ بن جاتی ہیں۔لوگ ان سے بچتے پھرتے ہیں۔کہ کب تک ان کی سنیں سب ہی کے بخیے ادھیڑتے ہیں کیا دنیا واقعی بھلے لوگوں سے خالی ہوگئی ہے۔ اپنی عقل کو کل سمجھ کر لوگوں کے بارے میں رائے بنا لیتے ہیں۔ اکثر تو کسی سے بلاوجہ ہی بغض رکھتے ہیں کہ مجھے وہ فلاں برا لگتا ہے پتہ نہیں کیوں لگتا ہے۔ پھر اس رائے کو وہ لاکھ اچھائی کریں تبدیل ہی نہیں کرتے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی مومن کا فہم بصیرت اسے الرٹ کردیتا ہے کسی پر فوری بھروسے پر دل آمادہ ہوجاتا ہے بلاوجہ دل کو بھا جاتا ہے اور کوئی نہیں بھاتا آگے جا کر پتہ چلتا ہے کہ وہ دل میں اچھی جگہ کیوں نہیں بنا پایا تھا۔ لیکن پھر بھی دین کہتا ہے لوگوں کو برتیے معاملات کیجئے پھر رائے بنائیے۔فورا ًسے رائے بنانے سے جج کرنے سے منع کرتا ہے۔سب کے لیے اچھا اچھا سوچیے شکایتی نہیں مثبت پرسنالٹی بنیے تا کہ لوگ آپ سے کترائیں نہیں۔ ہر وقت سب کی کھنچائی میں مصروف لوگوں کے معمولی عیب بھی معاف کرنے پر تیار نہ ہوں تو بہت منفی شخصیت تیار ہوتی ہے۔

اپنے بڑے مجرم کے لیے معافی مشکل لگنی چاہیے۔ لیکن مومن لوگوں کے چھوٹے موٹے عیوب تو معاف کرتا ہی چلے یونہی زندگی گزارے ورنہ پہلے سے مشکل زندگی مذید مشکل ہو جائے گی۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو یہ کہ بڑے مجرم کو بھی معاف کرے۔آپ کہتے ہیں کہ ہر مرتبہ معافی حل نہیں تو ماحول اگر ایسا میسر کہ اس کا محاسبہ ہوسکتا تو کروا لے اپنا بھی ساتھ محاسبہ کرے۔

ایمان والے پر کچھ مواقع ، گھڑیاں، راتیں اور مبارک دن ایسے آتے ہیں کہ جن کا ایمان والے پر اثر ہوتا ہے اور اپنا بڑےگناہ گار جسے عام حالات میں معاف کرنا مشکل ہوتا ہے وہ اسے بہت آسانی سے معاف کر دیتا ہے۔سچ بتائیے ان راتوں میں یہ گھڑی آپ پر نہیں آئی؟اللہ کا کھربوں احسان لیلۃ القدر ہمیشہ اس رات کا اثر مجھ سے کہتا دشمن کو معاف کرو یہ یقیناً اس رات ہر مومن کی کیفیت بنتی ہوگی۔ اور اگر بدلہ لینا ہی ہے تو بدلے کا دن تو طے ہے۔جہاں آپ کو بدلے لینے ہیں وہاں بہت سوں کو آپ سے بھی لینے ہیں اور اللہ کے بھی تو کتنے قصور وار ہم سو معاف کرنے میں ہی آخر ایمان والے کی بھلائی ہے۔

دُکھا ،ستا یاہوا دل جو لوگوں کے دیئے زخموں سے چور ہو پھر وہ زخم دکھن سے کدورت بغض کینہ بننے لگیں تو ایسے غمزدہ دل کی صفائی کی یہ ادا اتنی بھاتی ہے کہ ستانے والے سے آپ کو بچا کر لے آتے ہیں۔ اس کے شر سے محفوظ و مامون کرنے کے لیے حیران کن رستے نکالتے ہیں۔ہمیں وہ محفوظ کردیں اتنا بہت انتقام لینے والا ہمارا دل ہی نہ ہو، اف ! اس سے اچھا کیا۔ سو معاف کر کے تو دیکھیں۔