گزر گیا ماہِ مبارک

آہ !  بالآخر ماہِ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچا۔

کون سبقت لے گیا اور کون پیچھے رہا؟

کس نے عمل کیا اور کون سوچتا ہی رہا؟

کس کی مزدوری کا پلڑا جھکے گا اور کس کا اوپر اٹھ جائے گا؟

کون مطمئن و خوش ہوگا اور کون کفِ افسوس ملتا رہ جائے گا؟

کون کامیاب ہو گا اور کس کامقدر پچھتاوا ٹھہرے گا؟

یہ جو تیس دن تھے جو تیس گھڑیوں کی طرح گذر گئے اور اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئے۔

ایسے ہی زندگی بیت جائے گی اور دم رخصت یہ سارے سوال آنکھوں کے سامنے آٹھہریں گے۔

اللہ رب العزت یہ نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں !

كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَھا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّۃ أَوْضُحَاھا (النزعت۔٤٦)

جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انھیں یوں محسوس ہو گا کہ یہ بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے

بڑا ہی مشکل ہو گا اس دنیا سے رخصت ہونا اور دوبارہ اٹھنا۔

اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے۔

پھر جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا، اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا رہا وہ شخص جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا توہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا۔ وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے۔(النشقاق۔٦تا ١٤)

اس دنیا کی رونقیں انسان کو اتنا مگن کیے ہوئے ہیں کہ ہر نیک کام کل پر ڈال کر ہم مزے کی نیند سو جاتے ہیں۔ روز ایک کل آکر ماضی بن جاتا ہے کچھ اچھی اور کچھ بری یادیں ذہن پر نقش ہوتےہوئے قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں۔

وہی پیارے جن کے قدموں میں دنیا کی ہر خوشی ڈالنے کی خواہش میں ہم ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ وہی قیامت کے دن اس حال میں ملیں گے کہ

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اخیہ ،وَ اُمِّہ وَ اَبِیْہ، وَ صَاحِبَتِہ وَ بَنِیْہ (عبس۔٢٤تا٢٦)

اس دن ہر شخص بھاگے گا اپنے بھائی سے، ماں اور باپ سے، بیوی اور بیٹے سے۔

گیا رمضان سوچوں کے نئے در کھول گیا۔

خدا کرے کہ گزرا رمضاں ہماری زندگیوں کا بہترین رمضان بن چکا ہو۔ جاتے جاتے یہ ہمیں وقت کی قدر سکھا گیا ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو نبھانا سکھا گیا ہو۔

دعا ہے کہ اس کی عبادتیں، اس میں کئے گئے پرہیز ہماری ذات میں رچ بس چکے ہوں۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو کہ وہ سب پرہیز رمضان کے جاتے ہی قے کی طرح نکل جائیں۔

اگر یہ پرہیز دائمی بن گئے تو ہمارا شمار بھی اللہ کے ان پیاروں میں ہو سکتا ہے جن کے بارےمیں وہ فرماتا ہے

ارجعي الي ربك راضیۃ مرضيۃ فأدخلي في عبادي و ادخلي جنتي(الفجر)

چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو( اپنے نیک انجام سے) خوش (اور اپنے رب کی نظر میں) پسندیدہ ہے۔ پس تو شامل ہو جا میرے(نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔