اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنا لمحہ ء فکریہ

گزشتہ دنوں سے وطن عزیز میں صہیونی مارکیٹوں میں پاکستانی فوڈ پرڈوکٹس نے ہلچل مچا ر کھی ہے اور اس پر امریکی جیوش کانگریس کے خط جس میں پاکستانی کی اشیائے خوردونوش کی یروشلم میںفروخت کی تصدیق نے زلزلہ بپا کر دیا ہے ۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ میں واضح طور پر اسرائیل کا بائیکاٹ ہے۔

پاکستانی سوائے اسرائیل کے تمام دنیا کا سفر کر سکتے ہیں کیونکہ فلسطینیوں کی سرزمین پر جبری قبضہ کرکے قائم کیے گئے اس ملک کو سراسر ناجائز ریاست تصور کرنے کی وجہ سے پاکستان کسی بھی درجے میں اس سے سفارتی اور تجارتی روابط نہیں رکھتا لہٰذا یہ امر قابل اطمینان ہے کہ وزارت خارجہ نے تفصیلی وضاحتی بیان جاری کردیا ہے جس کے مطابق پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، ہمارے اس کے ساتھ نہ تجارتی روابط ہیں اور نہ ہی بینکنگ تعلقات ہیں۔

ترجمان کے مطابق اگر کسی تیسرے ملک سے پاکستانی سامان یا اجناس کی برآمد ہوئی ہے تو اسے اسرائیل کو پاکستانی برآمدات نہیں کہا جا سکتا۔ وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ طاہر اشرفی نے بھی صراحت کی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل تک اسرائیل سے کسی قسم کے روابط کا قیام خارج از امکان ہے جبکہ پاکستان کی مصنوعات اسرائیل بھیجنے والا پاکستان کا ایک یہودی شہری ہے جسے گزشتہ دور حکومت میں اسرائیل جانے کی اجازت دی گئی تھی ۔ تا ہم کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص فیشل بن خالد نے خود کو یہودی رجسٹرڈ کروا کر پاکستانی عوام کو چونکا دیا ہے۔

فیشل کے مطابق اس کی والدہ کا خاندان یہودی ہے والد سیکولر مسلم تھے ۔2013 ء میں فیشل نے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بھی بنایا۔2014 ء میں اس نے اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کے والد مسلمان اور والدہ یہودی تھیں۔فیصل کا کہنا ہے کہ وہ کبھی مسلمان نہیں تھا بلکہ اس نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی شناخت چھپائی تھی۔فیشل نے عالمی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دبئی میں ہونے والی بین الاقوامی نمائش میں پاکستانی غذائی مصنوعات اسرائیل بھیجنے کیلئے اس نے اسرائیلی تاجروں سے معاہدہ کیا اورامارات کے ذریعے پاکستانی اشیاء کی پہلی کھیپ بھیجی۔آخر یہ فیشل بن خلد کون ہے ؟ اور اسے اسرائیل جانے کی اجازات کس نے دی؟ اسرائیل میں پاکستانی مصنوعات کی موجودگی کے پس پردہ محرکات و مقاصد کیا ہے ؟

یقینا ان تمام سوالوں کے تانے بانے2005ء کی پرویز مشرف حکومت 2018ء کی تحریک انصاف دور سے جا ملتے ہیں ۔سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت میں اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کی صہیونی وزیر خارجہ سے ترکیہ ائیر پورٹ پر خفیہ ملاقات کا انٹر نیشنل میڈیا گواہ ہے اور اس بات کا برملا اعتراف خورشید قصوری متعدد بار اپنے ٹی وی انٹرویوز میںکر چکے ہیں ۔

واضح رہے کہ یکم ستمبر 2005 ء کو مذکورہ خفیہ ملاقات کے بعد پاکستانی مصنوعات سے اسرائیلی حکومت کی جانب سے عائد 96فیصد پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں۔ بعدازاں 2018ء نومبر پی ٹی آئی حکومت میں ایک بار پھر اسرائیل سے تعلقات بحالی کی گونج سنائی دی۔ اور ایک اسرائیلی طیارہ براستہ عمان وطن عزیز میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر اترا ۔ جسے پوری دنیا کے میڈیا نے ہائی لائٹ کیا ۔

بالخصوص بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی جبکہ پاکستانی حکومت نے اس کو چیلنج کرنے کے بجائے اس وقت کی پی ٹی آئی گورنمنٹ نے اسرائیلی جہاز کی پاکستان میں آمدکو ماننے سے انکار کر تے ہوئے جھوٹا بیانیہ گھڑکر پاکستانی عوام میں اس یقین کو پختہ کر دیا گیا کہ ایسا کوئی جہاز پاکستان نہیں آیا۔ اس کے بعد5جنوری کو ایک اور جہاز اسرائیلی نژاد مسافروں کو لے کر پاک سرزمین پر اترا تھا ۔جس کی تصدیق باقاعدہ وزرات داخلہ کی دستاویزات سے ہوتی ہے۔

بعدازاں24 جنوری کو بی بی سی کی رپورٹ میں ہی پردہ فاش ہوتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے واحد یہودی فیشل بن خلد کو بطور پاکستانی شہری یہودی تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل جانے کی اجازات کے ساتھ ساتھ اسے مذہب کے خانے میں بھی یہودیت درج کرنے کی اجازت دی گئی ۔جس کا امریکی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) امریکن مسلم ملٹی فیتھ ویمنز امپاورمنٹ کونسل کی سربراہ اور اسرائیلی دورے کی منتظم انیلہ علی کی ویڈیو میں بھی انکشاف کیا گیا ، کہ کس طرح انیلہ علی فیشل بن خلد سے ملی اور انہیں اسرائیل جانے کی اجازات دلانے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کے minister of religions harmony کو پاکستان میں منعقدہ ریلجنس فریڈم کانفرنس میں مد عوکیا اور انہیں کہا کہ میں پاکستان کے پہلے جیوش کو یروشلم لے جانا چاہتی ہوں۔

انیلا کے مطابق مذکورہ وزیر نے اسے خوش آئندقرار دیا اور پھر وزیر اعظم عمران خان نے پاسپورٹ میں مذہب کے خانے میں یہودیت لکھنے کی اجازت دیدی۔ پہلے فیشل بن خلد کے قومی شناختی کارڈ پر نام’’ فیصل بن خالد‘‘ درج تھا۔غور طلب تو یہ ہے کہ باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے ۔پاکستانی صحافی سلمان احمد قریشی سمیت زلفی بخاری کی اسرائیل آمد ، وہاں خفیہ ملاقاتوں کی خبریںمنظر عام پر آ چکی ہیں ۔

تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید نے بھی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کرا وئی تھی اور یہ سب کچھ اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کا تنازعہ سامنے آنے کے چند دن بعد ہوا ۔مزید برآں بیشتر پاکستانی سینئرز صحافی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم کا حصہ ہیں ۔اب یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ حکومت مستقبل میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایسی ہی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کرے گی؟

لمحہ ء فکریہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے ذریعہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات سے متعلق راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی حمایت کے لئے آج سے نہیں بلکہ گذشتہ پانچ دہائیوں سے کام جار ی ہے اور جو عناصر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو پاکستان کے معاشی حالات بہت ترقی کر لیں گے یہ صرف ایک دھوکہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اسرا ئیل کو تسلیم کرنا نہ صرف قبلہ اول سے بلکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح کے نظریہ سے بھی غداری ہو گی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی عالمگیر جدوجہد اور قائدانہ فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ قرار داد منظور کرکے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور عالمی بد امنی کے خطرے کے پیشِ نظر اسرائیل کے اقوامِ متحدہ کا رکن بننے کی مخالفت کی ۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دے کر اس صیہونی ریاست کو تسلیم نہ کیا قائداعظم کی اِس غیر مبہم ، واضح اور بایقین بصیرت کے پیشِ نظر فلسطینی قربانیوں سے عوامِ پاکستان کا تعلق پختہ تر و مضبوط تر ہے اور قائداعظم کی ہوئی تربیّت اور دی ہوئی رہنمائی کی بدولت کسی حکمران کو آج تک یہ جرات نہیں ہو سکی کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو کو تسلیم کرنے کا جرم کر سکے کیونکہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز طریقہ سے قابض طاقت ہے اسرائیل کو تسلیم کرنابے گناہ فلسطینیوں کے لہو سے غداری ہو گی ۔

یہودیوں کے نزدیک اسرائیل فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ مشرق و مغرب چہار سودریائے فرات سے جنوب میں خط استواء تک پھیلا ہوا ہے۔صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کے تمام یہودی ایک نسل اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں اور پوری نسل انسانیت ان کی خادم ہیںاور دنیا پرحکمرانی صرف یہودیوں کا حق ہے، اس مقصد کا حصول اسی طرح ممکن ہے کہ دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کے علاقوں پر یہودی سلطنت قائم کی جائے۔ در حقیقت صہیونی یہود ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے میں تمام شام‘ لبنان‘ اردن‘ جنوبی ترکی‘ عراق ‘ صحرائے سینا‘ مصر میں دریائے نیل کے ڈیلٹا کے تمام علاقے اور مدینہ سمیت حجاز اور نَجد کے شمالی خطہ کوشامل کرتے ہیں۔صہیونیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دنیا پر کنٹرول اورغلبہ حاصل کرنے کے لئے تشدد اور دہشت گردی اور ظلم کو روا رکھنا چاہیے اور وہ غاصب ریاست اسرائیل کو روز بروز قوی و مستحکم بنانے کے لئے دہشت گردی ‘ تشدد اور ظلم وجبر کے تمام حربے جائزسمجھتی ہے ۔ لہذاصہیونی خطرہ صرف فلسطین کے خطے تک محدود نہیں بلکہ صہیونیت ا سلام اور دنیائے اسلام کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے۔