احساس کے رنگ

دو تین دن پہلے جب حسب معمول میں اپنی دورہء قرآن کلاس کے لئے گھر سے نکلی تو راستے میں مجھے کچھ بہنوں کو لینا تھا ان میں سے ایک بہن جو اوکاڑہ سے ہیں یہاں اپنی بیٹی کے گھر ملنے آئی ہوئی ہیں۔ انہیں اپنی بیٹی کی ہمسائی کے ذریعے دعوت ملی تھی۔ اس طرح وہ کلاس میں آنا شروع ہوئیں وہ اپنی بیٹی کی ہمسائی سے کہنے لگیں کہ رضیہ میں آپ سے بہت خوش بھی ہوں اور مجھے آپ سے کچھ گلہ بھی ہے، خوش اس بات پر ہوں کہ آپ نے مجھے اتنی اچھی کلاس کی دعوت دی میں اپنی زندگی میں پہلی بار اس طرح سے قرآن سن رہی ہوں گھر میں تو ہم نے کبھی اس طرح قرآن کو پڑھا ہی نہیں، نہ ہمیں قرآن کی ایسی سمجھ آئی جو اس کلاس کے ذریعے آئی ہے۔ گھر میں تو صرف ناظرہ پڑھ لیتے ہیں اور بس اور مجھے گلہ اس بات کا ہے کہ آپ نے مجھے دیر سے کلاس کی دعوت دی اور میں شروع سے اس میں شامل نہیں ہوسکی۔ بہر حال انکے گھر والے انہیں اوکاڑہ بلا رہے ہیں اور وہ کہ رہی ہیں کہ میں قرآن مکمل کر کے آؤں گی۔

انکی یہ باتیں سن کر بے اختیار مجھے سورہ البقرہ وآل عمران کی وہ آیات یاد آگئیں جس میں اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو بہترین اُمت قرار دیتے ہوئے امر بالمعروف، نہی عن المنکر کو اس کا فریضہ قرار دیا ہے۔ اور پھر سورہ النساء کی وہ آیت یاد آگئی کہ کل قیامت کے دن جب اللہ کی عدالت میں رسولوں کو انکی امتوں پر اور مجھے امت مسلمہ کے لوگوں پر گواہ بنا کر کھڑا کیا جائے گا تو اس وقت میرا جواب کیا ہو گا ؟ کہ اے اللہ آپ کی اتنی بڑی دنیا میں آپ کے دین کا پیغام میں کتنے لوگوں تک پہنچا سکی ؟

اے میرے رب میری کوششیں تو شاید ریت کے ایک ذرے جتنی بھی نہیں ہیں اپنی ساری غفلتوں، کوتاہیوں کا تصور میری نگاہوں میں گھوم گیا۔ اس تصور کے ساتھ ہی ایک جھر جھری آ گئی اور زبان پر استغفار جاری ہو گیا۔

کلاس کے اختتام پر جب یہ بات کلاس کے شرکاء کو بتائی تو وہ اس احساس سے بے چین ہو گئے کہ کل روز محشر ہماری پوزیشن کیا ہو گی ؟ کیا ہم وہاں پر سرخرو ہوں گے یا خدانخواستہ کچھ اور ؟

اور پھر ہم سب نے مل کر یہ عہد باندھا کہ ان شاءاللہ ہم اپنی کوششوں کو بڑھائیں گے اور تیز بھی کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ تاکہ ہم اپنی مختصر مہلت عمل میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ گواہیاں اکھٹی کرسکیں اور رب کے بندوں تک رب کا پیغام پہنچا کر روز محشر اپنے رب کے حضور سرخرو ہوسکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین