حقوق میں تصادم نہیں‎‎

 

اللہ نے جب دنیا بنائی تھی نا تو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بنائی.اللہ کے کسی کام میں کسی اصلاح کی گنجائش نہیں، وہ کامل ہے اور کامل منصوبہ سے ہی اس نے ہر ہر فرد کے حقوق اور فرائض مقرر کیے، ہم دیکھیں گے کہ جب اللہ نے حقوق میں تصادم پیدا نہیں کیا یعنی جب ایک فرد کے حقوق کی ادائیگی سے دوسرے کی حق تلفی نہیں ہوتی پھر جب کوئی فرض شناس اور خوف خدا رکھنے والا شخص ہر ہر فرد کے جداگانہ حقوق احسن طریقے سے ادا کرنا چاہتا ہے تو ایک کشمکش اور تناؤ کی فضاء کیوں پیدا کر دی جاتی ہے؟ فرض کی ادائیگی میں ہم کیوں رکاوٹ بن جاتے ہیں؟مثلاً، ایک مرد اپنے زیر کفالت ماں، بہنوں کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اور بیوی کے حقوق بھی ادا کرتا ہے تو سر دست اس میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہونے والی کیا بات ہے۔

دراصل انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے ، اپنے حقوق کے حصول کے بعد بھی اس کی حرص اسے چین نہیں لینے دیتی وہ مزید کی طلب میں رہتا ہے، دوسرے کو خوش نہیں دیکھ سکتا یعنی رقابت و حسد کا جذبہ بھی اسے اپنے حقوق پر مطمئن نہیں ہونے دیتا، کبھی بڑائی کی خوایش بد اسے چین نہیں لینے دیتی حالانکہ برائی اللہ کے لیے ہے اور جو اس میں حصہ دار بننے کی کوشش کیا کرتا ہے اللہ اسے رسوا کر دیا کرتا ہے مگر تلخ حقیقت ہے کہ جھوٹی برائی کے طلبگار اپنے حقوق پر مطمئن نہیں ہوتے،وہ دوسروں کو اپنا محتاج دیکھنا پسند کرتے ہیں،حاکمیت کا یہ پندار ان سے انتہائی رذیل حرکتیں کروانے سے بھی باز نہیں آتا۔

سر دست یہ سب درست مگر اللہ نے تو بہرحال ہر انسان کے حقوق مقرر کر دییے ہیں نا ! پھر جب ہم فردا فردا تمام زیر نگرانی لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے کوشاں ہیں، کسی کی حق تلفی جانتے بوجھتے نہیں کرتے تو پھر ہم کسی ایک فرد کو یہ حق کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ ہمارے زیر نگرانی،دوسرے فرد کے حقوق سلب کرے، کیا ہم خود کو اتنا بے بس پاتے ہیں کہ ہمارے زیر دست لوگ ہمارے سامنے ہی اپنے حقوق سے محروم کر دیئے جائیں؟ ہم کسی کو اتنی شہ کیوں دیتے ہیں کہ آپ اپنے دوسرے رشتے کو اس کے شر سے محفوظ ہی نہیں رکھ پاتے؟

بجا ہے کہ والدین سے حسن سلوک پر بے شمار اجر ہے مگر والدین کسی غلط کام کا حکم دیں یا آپ کی بیوی سے نازیبا سلوک برتیں حالانکہ بیوی اور ماں کے حقوق یا بہنوں کے حقوق کے مابین اللہ نے کوئی تصادم نہیں رکھا تو کیا یہ والدین کی فرمانبرداری اور حسن سلوک میں آئے گا کہ ایسے میں دب جایا جائے اور بیوی کو برداشت کرنے کی تلقین کی جائے؟

سر دست، جب اللہ کی فرمانبرداری ہمیں کسی کی دل آزاری پر مجبور نہیں ہونے دیتی تو کیا والدین کی فرمانبرداری ہمیں درست اور مبنی بر حکمت فیصلہ لینے سے روک سکتی ہے؟یہ تو خود اللہ سے شرک ہو گا کہ اس کے بندے کے غلط عمل پر خاموش رہا جائے اور زیادتی کا شکار دودرے فریق کو اس کے جبر و ناروا رویے سے بچانے کے لئے کوئی تدبیر نہ کی جائے۔

اللہ ہمیں شرح صدر عطا کرے، رشد اور حکم عطا کرے، امین۔