معافی تلافی

معاف کرنا جہاں بہت اعلیٰ ظرفی کی بات ہے معافی وہاں مانگنا بھی بڑے جی گردے کا کام ہے۔

“مجھے معاف کر دیجیے۔” یہ ایک ایسا جملہ معترضہ ہے جسے منہ سے ادا کرنے میں انسان کو بڑی دقت پیش آتی ہے۔ “جاؤ میں نے معاف کیا” اگر معاف کرنے والا شخص اعلیٰ ظرف ہو تو چند لفظوں پر مشتمل یہ جملہ معافی کے خواستگار کی روح کو اندر تک سرشار کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کم ظرف اور کینہ پرور شخص معافی مانگنے والے کو نخوت و تکبر سے دھتکار کر کہتا ہے: “تیری فلاں بات اور ڈھمکاں رویے نے مجھے خون کے آنسو رلایا ہے جا میری مرضی میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا۔” اس بات سے قطعاً لاعلم کہ ایسا کر کے وہ اپنے سر پر کتنا بڑا وبال لے لیتا ہے۔ معاف کرنا بچوں کا کھیل ہرگز نہیں۔ اور نہ ہی مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا جاتا ہے۔ بار بار معاف کرنے کے باوجود اگر کوئی سرکش اپنی روش سے ہرگز باز نہ آئے، بلکہ معافی مانگنے کو کھیل سمجھ لے تو ایسوں کا معافی مانگنا اعلیٰ ظرفوں کو بےزار کر دیتا ہے۔ پھر اس پر معافی کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔

ہاں مگر در ایسا ہے جو ہمہ وقت سب ہی کے لیے کھلا ہے۔ ایک ذات ہے ایسی اس کل کائنات میں جو بار بار معاف کرنے سے ذرا بھر بھی نہیں اکتاتی۔ واہ کیا کہنے رب العالمین کے کہ اس کا بندہ ساری زندگی اپنے مالک کی نافرمانیوں میں گزار کر بس ایک مرتبہ صدقِ دل سے “یا اللہ! مجھے معاف کردے” کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر فوراً معاف کر دیتا ہے۔ اللہ غفار الذنوب اپنے بندے کو یہ طعنے نہیں دیتا کہ میاں اب ہوش میں آئے ہو؟ ساری جوانی تو گناہوں میں مبتلا رہے اب قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہو تو توبہ توبہ کر رہے ہو جاؤ میں نہیں معاف کرتا۔”

ہمارا رب عفو و درگزر کرنے والا، تواب الرحیم، غفار الذنوب ستار العیوب ہے جو اپنی مخلوق سے سب سے پہلے راضی ہو جانے والی واحد ذات پاک ہے۔ جو اپنے نافرمان و گناہگار بندے کی توبہ کا شدت سے منتظر رہتا ہے کہ اِدھر بندہ احساسِ ندامت سے سر جھکا کر چار آنسو بہاتا ہے اُدھر وہ اپنے نادم و پشیمان نادان بندے کو پوری فراغ دلی سے معاف کر دیتا ہے اور یہی نہیں بلکہ سچے دل سے معافی مانگنے والے کے اگلے پچھلے سارے گناہوں، نافرمانیوں کوتاہیوں اور غلطیوں کو اپنی ستاری کی چادر سے ڈھانپ بھی دیتا ہے۔

مگر جناب کیا کیجیے کہ اس غفور الرحیم ذات کے بندوں کا جو خود تو اپنے خالقِ حقیقی کی سر عام نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ معافی مانگنا اور معاف کرنا ان کی سرشت میں شامل نہیں یہ انا پرست، کینہ پرور اور متکبر بندے اپنے ہی جیسے خطا کے پُتلوں کی چھوٹی چھوٹی سی باتوں کو اپنی جھوٹی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ایسا روٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ بار بار معافی مانگنے پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ معافی مانگنے والے کو اللہ تعالیٰ کا انصاف مانگ کر اپنا معاملہ بارگاہِ الٰہی میں پیش کرنے کی تڑی دیتے ہیں گویا حد ہی کر دیتے ہیں۔ ارے صاحب یہیں پر دو دو ہاتھ کر لیجئے۔ اللہ تک بات گئی تو سوچ لیں اتنے دودھ کے دھلے تو آپ بھی نہیں ہیں۔

للہ! کسی کو معاف کرنے اور کسی سے معافی مانگنے کے لیے اس کی روح نکلنے کا انتظار نہ کریں۔ اور مخصوص راتوں میں محض دکھاوے ، رسمِ دنیا نبھانے کے لیے ایک عدد معافی نامہ بھیج کر اپنی دانست میں معافی مانگ کر اگلے کی سات نسلوں پر احسان نہ کریں۔ بس جس وقت اپنی غلطی کا ادراک اور احساس ہو جائے، جب بھی موقع میسر آئے اسے گنوانے کی بجائے اعترافِ جرم کرنے کے بعد معافی مانگنے میں قطعاً کوئی عار، شرم محسوس نہیں کریں بلکہ فوراً سے پیشتر معافی مانگ کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائیں۔ اب چاہے بندہ راضی ہو یا نہ ہو آپ نے معافی مانگ کر رب العالمین کو راضی کر لیا۔ اب آپ کے دل پر کوئی بوجھ نہیں، دل مطمئن ہے نا۔ بس اتنا کافی ہے۔

چھوٹا سا دل ہے اور اتنے سارے پیارے پیارے رشتے۔ اس چھوٹے سے دل میں کینہ، بغض اور برائی رکھ کر اسے گندا و ناپاک نہیں کریں۔ آج سب کو دل سے معاف کر کے اللہ تعالیٰ سے سچی لَو لگا لیں۔ کسی اپنے کے ہاتھوں چوٹ کھانے، شدید نقصان پہنچنے، غیبت، چغلی یا دل آزاری کرنے پر معاف کرنا گویا انگاروں پر لوٹنا ہے۔ مگر ان سب باتوں پر صبر کرتے ہوئے درگزر کر کے یقیناً آپ کی عاجزی و انکساری آپ کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں سرخرو کردے گی۔ ان شاءاللہ عزوجل۔

یاد رکھیں یہ زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔ نہ یہ وقت لوٹ کر آئے گا۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً اپنے پیاروں کا دیدار کرتے رہیں۔ معافی تلافی کرتے رہیں نجانے کب کس گھڑی اچانک کون ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا جائے۔ پھر آپ چاہے جنازے کے پائے پکڑ کر آہ و بکا کریں، لاکھ سر پیٹیں، معافیاں مانگیں۔ سب بے سود ہے۔ کیوں کہ صاحب مردے بولا نہیں کرتے۔ اب آپ کا معاملہ اللہ جل جلالہ کی عدالت میں پیش ہوگا۔

اسی لیے اللہ کے پیاروں یہیں دنیا میں ہی معاف کردیں۔ معاف کروا لیں۔ وگرنہ آخرت میں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے۔

ابھی وقت ہے دل سے سب کو معاف کرکے روٹھے ہوؤں کو منانے کا۔ ٹوٹے ہوؤں کو جوڑنے اور بچھڑے ہوؤں کو ملانے کا