میرا کردار میری تاریخ کا تقاضا

تئیس مارچ ۱۹۴۰ تاریخ ساز دن ہے یہ دن ہے عہد باندھنے کا خود سے قوم سے اپنی ملت سے ۔

وہ عہد جو ہمارے بزرگوں اور اجداد نےباندھے تھے ۔ ایسی مملکت قائم کرنے کا عزم جہاں اسلام کے اصولوں کو آزمایا جاۓ ۔

اسلامی معیشت اسلامی ریاست اسلامی تہذیب و تمدن اسلامی معاشرے اور اسلامی ثقافت کے ہر رنگ میں مملکت خداداد کو رنگا جائے ۔ اور ساری دنیا کے لوگ اپنی آنکھوں سے اس کھلی حقیقت کو دیکھ لیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ روۓ زمین پہ بسنے والی تمام اقوام کی بھلائی کون سے نظام میں مضمر ہے ۔

پاکستانی قوم کے ہر ایک جواں کو یہ بات اپنے علم میں رکھنی چاہئے کہ ہمارے پرکھوں نے تئیس مارچ کے ناقابل فراموش دن کو جو عہد و پیمان کئے تھے جن وعدوں کی تکمیل انکو اپنی آخری سانس تک کرنی تھی ان کی یہ ساری محنتیں آنے والی نسلوں کے لیے زندگی کا پیام تھیں۔

آباء و اجداد کی گزر جانے والی نسلیں موجودہ حالات کے تناظر میں ہم سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ قوم کا مستقبل بنانے والوں کی حیثیت رکھتے ہوئے ہم نے ملک کو سنوارنے بنانے تعمیر کرنے میں اپنا کیا اور کتنا کردار ادا کیا ہے ۔

باشعور طلباء وطن عزیز کا گراں قدر سرمایہ حیات ہیں اس مقام پر ہماری موجودگی ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ ملک کو سنبھالا دینے کیلئے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کیلئے بہترین قانون سازی کرنے والے کون سے اور کس معیار کے رہنماؤں کو ہم نے منتخب کیا ہے ۔

ہماری حمایت کس کے پلڑے کا وزن بڑھا رہی ہے یہ بات بھی بھلا دینے والی نہیں کہ جب ماضی میں ہمارے رہبر و رہنما سیاسی بصیرت اجلے شفاف کردار کے حامل اور ستھرا طرز عمل رکھنے والے تھے کہ جن کی وجہ سے عہد رفتہ کی روشنی و تابناکی ہمیں آج بھی مستقبل کی راہیں دکھا رہی ہیں ۔ تو پھر آج کیوں نا ایسے امانت دار افراد کو قیادت کے منصب کا اہل سمجھا جاۓ امانتیں جائیں حق کی ادائیگی کرنے والوں کے سپرد کی جائیں جو ہمارے لئے زندگی کے دائرے کو شکنجہ میں تبدیل کرنے والے نہ ہوں ۔

پیارے پاکستان کو حاصل کیے پچھتر سال یعنی پون صدی گزر چکی ہے۔یہ عرصہ کسی بھی ملک و قوم اور ریاست کے لیے سماجی،سیاسی،معاشی ثقافتی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے بلکہ اطراف کی ریاستوں کے لئے بھی رول ماڈل بننے کے لیے کافی ہوتا ہے۔یوم پاکستان کے اس تاریخی دن کی یاد مناتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص خود کا احتساب کر کے دیکھے کہ ہم نے ماضی سے کیا کھویا ہے۔کیا کچھ حاصل کر پائے ہیں۔پاکستان کو ایک خود انحصار خوددار ریاست بنانا دیگر بہت سے اداروں کے ساتھ ہمارے اساتذہ کا طلبہ وطالبات دونوں کا ہی اولین فرض ہے۔ماضی اور حال پر اک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی یہ احساس پوری قوت کے ساتھ ابھرتا ہے۔کہ ہم اب تک کی قومی زندگی میں کسی بھی عملی میدان اور دوسرے شعبہ جات میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔اور نہ ہی معاشی سیاسی ثقافتی سماجی لحاظ سے اتنے مضبوط اور مستحکم بن سکے ہیں کہ اپنے ملک کو معاشی طور پر زوال کا شکار ہونے سے بچا پائیں۔آج بھی ہماری معشیت دوسرے ممالک کی محتاج ہے۔جو ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں۔جن کی پہلی خواہش پاکستان کو دیوالیہ ہوتا دیکھنے کی ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھرپور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔اگر ہم ان وسائل کا ٹھیک طور پر استعمال سیکھ جائیں تو ہم معاشی سطح پر خود کفیل ہوسکتے ہیں۔اس ضمن میں اساتذہ وطلبہ سے توقع رکھتے ہیں۔کہ وہ پیارے وطن عزیز کی فلاح وبہبود تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔یوم پاکستان کے موقع پر خوشی کا اظہار پرچم کشائی،برقی قمقمے، نغمے ریلیاں، پریڈ، میوزک پر دھمال باجے گاجوں سے آگے بڑھ کر ہمیں گفتار کے غازی کے بجائے کردار کا غازی بننا ہوگا۔خوشی کا اظہار مناسب طریقے پر ہوتو خوبصورت لگتا ہے۔مگر آج جو وطن کے حالات ہیں ان پر دل اداس ہے۔ملک کا اک بڑا حصہ بارشوں اور اس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے دن رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔مہنگائی جیسی آفت سے بھی ہم کو واسطہ لاحق ہےایسے میں کرنے کے کام یہ ہیں کہ نوجوان نسل طلبہ اور اسکول کے بچے سائنس اور تحقیق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو کھپائیں۔غیر اقوام کا فضول کلچر و ثقافت اپنانے کے بجائے تعلیمی میدان میں ان سے سبق حاصل کیا جائے۔کہ کس طرح وہ ٹیکنالوجی اور سائنس کے شعبہ جات میں ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ناگزیر ہے۔لیکن اخلاق و کردار تباہ کرنے والی ایپس سے بچا جائے۔

ہمارے ہیروز اسلامی تاریخ کے وہ کردار ہوں۔جنھوں نے اپنی بہادری قابلیت لیاقت صلاحیت کا سکہ اقوام بالا پر بٹھایا بجائے اس کے کہ ہم فلمی ہیروز،ٹک ٹاکر،یوٹیوبرز،سنگرز کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔اور یہ زندگی جو وطن کی خدمت پر خرچ ہونی چاہیے۔اسے لغویات میں گزار دیں۔ان شاء اللہ آئندہ آنے والے سالوں میں ہم اپنے پیارے دیس کو عظیم الشان مملکت کے روپ میں ڈھلتا دیکھیں گے۔جو حقیقی معنوں میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خواب جدوجہد اور محنتوں کا عکس ہوگی۔اور یہ سب باتیں حقیقت کا روپ تب ہی دھار سکیں گی۔جب گروپ گروہوں فرقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے اک قوم بن کر کھڑے ہوں۔