استقبالِ رمضان

مدینے میں گویا صحابہ کرام کا  ایک جلسہ عام  ہورہا ہے اور ابھی شعبان کے مہینے کے ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں جلسہ  کا عنوان  “استقبال رمضان ” ہے اور رحمت اللعالمین ﷺخطاب فرمارہے ہیں  صحابہ کرام  پوری توجہ اور انہماک سے  فرمانِ نبوی ﷺ سن رہے ہیں جب کوئی مہمان گھر آرہا ہوتاہے جس سے گھر والے محبت کرتے ہوں اور آنے والا مہمان ایک لمبے عرصے کے بعد بہت سارے تحفے تحائف لے کر دوبارہ واپس آرہا ہو تو اس مہمان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس کا انتظار شدّت کے ساتھ کیا جانے لگتاہے۔

بےشک رمضان المبارک بھی وہ مہمان ہے جو کہ اپنے ساتھ بے شمار تحائف لے کر آرہا ہے۔  رسول ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! تم  پر ایک بڑی عظمت والا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے اس میں ایک رات  ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے اس مہینے میں دن میں روزہ رکھنا اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے اور راتوں  میں  قیام کرنا نفل قراردیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا و قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی نفل ادا کرے گا وہ دوسرے مہینوں  کے فرض کے برابر ہو گا اور اگر کوئی اس مہینے میں فرض ادا کرے گا  تو گویا اس  نے ستّر فرض ادا کئے۔

یہ صبر کا بھی مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اس مہینے میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کردیا جاتاہے ۔ جس کسی نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو روزہ افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور آگ سے نجات کا باعث ہوگا اور اسے اس روزے دار کے روزے کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ اس روزے دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔ کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ ہم میں سے ہرکوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا جس سے وہ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا سکے نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ یہ ثواب اس کو بھی دیا جائے گا جو تھوڑے سے دودھ کی لسی، کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرائے گا اور جو کوئی کسی کو پیٹ بھر کر افطار کرائے گا اس کو االلہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرائے گا  کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو  پیاس نہیں لگے گی  یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔

یہ وہ مہینہ ہے جس کے تین عشرے ہیں پہلا رحمت کا دوسرا مغفرت کا اور تیسرا جہنّم سے نجات کا اور جو شخص اس مہینے میں اپنے مملوک سے کام میں تخفیف کرے گا اس  کی  اللہ مغفرت فرمائے گا اور  جہنّم کی آگ سے نجات عطا فرمائے گا۔ یہ وہ  حدیث ہے جس کے راوی حضرت سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ ہیں  ۔نبی رحمت ﷺکی اس خطبہ نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہ کے اندر رمضان کی اہمیت  کو واضح کردیا۔ اس طرح صحابہ کرام کو جمع کرکے اور ان کے سامنے یہ گفتگو آپ ﷺ رمضان سے پہلے اس کے استقبال کے موقع پر کیا کرتے تھے۔

رمضان المبارک کی ساعتوں میں ہی  نظام باطل کے خلاف تین سو تیرہ  اہل ایمان نے فتح پائی تھی اور یہی وہ مہینہ تھا جس کی ساعتوں میں اہل ایمان نے خانہ خدا کو مشرکوں کے قبضے سے چھڑا یا تھا میرے عزیز ! وہ نظام باطل کیاتھا جس کی سربراہی ابوجہل کے ہاتھوں میں تھی جس  نظام کو سرمائے کا خون ابولہب اور اس وقت کے سرمایا دار فراہم کررہے تھے تاکہ یہ نظام باطل ایسی طرح چلتارہے اور عوام پر ظلم ستم کی یہ سیاہ رات قائم و دائم رہے بالکل ایسی طرح جس طرح فرعون کا نظام حکومت قارون کے خزانے کے لہوں سے پھلتا پھولتا تھا۔

آج بھی اسی طرز کی حکمرانی موجود ہے بس شکل بدل گئی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس نے اہل ایمان کو  مشقتوں سے گزار کر اور اللہ کی کتاب سے لیس کرکے باطل کے خلاف صف آرا کیا تھا مگر اب پھر رمضان آئے گا ہم اور آپ اس کا استقبال کریں گے پورا مہینہ روزے بھی رکھیں گے مگر شاید کوئی تبدیلی  نہیں آئے گی  اس لیے کہ ہم رمضان کے پیغام کو سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ جیسے علامہ اقبال نے کہا کہ

فلسفہ رہ گیا  تلقین غزالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذا ں روح بلالی نہ رہی

اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ رمضان کے پیغام کو سمجھا جائے قرآن کو تھاما جائے   اس پیغام کو  گھر گھر اور در در پہنچایا جائے اور مسلسل جدوجہد کا عنوان بنا جائے اسی میں ہماری  اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا ہے ورنہ یہ بھیڑئیے کسی دن پوری قوم کے لیے اس ملک  کو  کسی جاگیرداریا وڈیرے کی نجی جیل میں تبدلی کردیں گے اور پھر روزانہ  سیکڑوں  کی تعداد میں لاشیں بارکھان کی طرح جیسے کنووں سے نکلیں گی، معلوم نہیں کہ پھر کوئی سینیٹر مشتاق ہوگا یا عبدالاکبر چترالی ہوگا جس کو ان بے گناہوں کی چیخیں اور قرآن کاواسطہ چین سے سونے نہ دے رہا ہوگا۔ اٹھو کہ دیر نہ ہوجائے۔