ایوارڈ کہانی ! بات تلخ مگر ہے سوچنے کی

ہمارے عمومی رویے ایسے ہو چکے ہیں کہ ہم تنقید برائے اصلاح کے فن اور ہنر سے بھی دور ہوتے جا رہے اور جہالت کا شکار زیادہ نظر آتے ہیں۔ بات کو دلیل/ثبوت کے ساتھ بیان کرنا جیسے ہم بھول ہی گئے ہیں۔ عقل و فہم سے بہت دور،دور اور دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بات کو سمجھنا، پرکھنا، جاننا تو شاید ہمارے بس کی کہانی ہی نہیں رہی، سوال گندم پوچھا جاتا ہے اور جواب چنا ملتا ہے۔ بعض جاہل اجڈ شاعروں، ادیبوں، مصنفوں، پبلشروں کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ دماغ ان کے چلے ہوتے ہیں بات وہ سمجھ نہیں سکتے اور سوال کے جواب میں اپنی ہی آراء، مشوروں، نصیحتوں کا تو مذاق بھرے مجمعے، گروپ میں اپنے آپ کو ارسطو سمجھے، اپنی احمقانہ و جاہلانہ باتوں سے اڑاتے ہی، کچھ کہہ بتا سنا کر، کوئی تسلی بخش جواب نہ ہونے پر غیرمناسب رویہ اپنائے مزید زمانے بھر کی جگ ہنسائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو بہت ”مہان چیز” متصور کرتے، جعلی، بے نام تنظیمیں بنائے اپنے چند حاشیہ بردار غلام نما چمچوں، خوشامدیوں، جی حضوری، ماشااللہ سلامت رہیں، جئیں ہزاروں سال فرمانے جیسے اشخاص کے ذریعے مختلف مکارانہ، ڈرامہ کتب کہانی کالم ایوارڈ شو سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جن احباب کو ایوارڈ مل جاتا ہے وہ پسلیوں باہر نظر آتے ہیں اور جن کو نہیں ملتا وہ واٹس گروپ میں ہی ہڑبڑاکر، جلدی مچائے ایوارڈ تصویرکیپشن لگا کر تحریری طور پر فرمادیتے ہیں کہ ’’باقی شرکاء کے لیے کیا حکم اور ہدایات ہیں‘‘؟خوش فہمی ایوارڈ ملنے والے اور ایسے میں منتظر ایوارڈ افراد کی حالت ایسی نظر آتی ہے کہ ان کی ظاہری حالت دیکھ کر ترس آنے لگتا ہے کہ اپنی بے بسی، لاچارگی کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ اپنے گروپ میں ہی اشاراتاً ”ہمارا ایوارڈ” اور ”کیا حکم کیا ہدایات ”کی چیخیں مارتے، انتہائی دل برا کیے، دبے لفظوں میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ”ہمیں ایوارڈ دو”کیاحکم اور ہدایات ہیں میرے آقا؟”۔۔۔۔۔صد حیف ایسے ایوارڈ، گولڈ میڈل، شیلڈ، تعریفی اسناد پر، جس کے لیے سرعام، سر محفل صدائے عام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوچئے کہ ایسے ایوارڈ کا لینا اور دینا کیسا ہوگا؟ اور اس ایوارڈ کی اہمیت و حیثیت کیا ہو گی؟ ایوارڈ لو تو سنا تھا، ایوارڈ دو، بھی ایک ادبی گروپ میں کہتے سن لیا۔ صد حیف ایسے ایوارڈ، میڈل، شیلڈ پر جو ایسے ملتے اور دیے جاتے، ایسے کہہ اورمانگ کر لئے گئے ایوارڈ کی مقبولیت کیا؟حیثیت کیا؟ معیار کیسا؟ مجھے اس موقع پر معروف صحافی/کالم نویس، دانشور محترم جناب کثرت رائے صاحب کی بہت یاد آئی کہ کہ جنہوں نے مجھے ایک اورصحافتی گروپ میں بولا کہ ”ایوارڈ ملتے نہیں، لیے جاتے ہیں اگر یہ ایوارڈ میرٹ پر ملتے تو میرے پاس ہر سول ایوارڈ ہوتاـ‘‘۔قارئین حقیقت یہی ہے جو کثرت رائے صاحب نے بیان کی اوراس بات کو جھٹلانا کسی طور مناسب بات نہ ہے۔ بیشتر ایوارڈ دینے والی تنظیموں، اداروں کا معاملہ اور لینے والوں کا حال ایسا ہی ہے۔ محض صرف تنظمی دکانداری چلانے کیلئے اپنی تنظیم اور گروپ میں ایوارڈ لو اور دو، افراد کا ایک ایسا گروپ تشکیل دے رکھا ہوتا ہے جو غلام نما چمچوں جیسا کردار نبھاتے ،جب کبھی ایسے اصحاب / تنظیموں پر کوئی حرف آتا تو یہ ان کا دفاع کرتے ایسی ایسی جاہلانہ واحمقانہ باتیں کرجاتے ہیں کہ ان کی عقل و سمجھ پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ جن کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا، بس یہی کہوں گا کہ اگر یہ لوگ صاحب دانش ہیں تو ایسی دانش کا اللہ ہی حافظ اور دیئے او رملے ایوارڈوں پر ناخوشگوار حیرت۔ ایسے میں بے اختیار کہنا ہی پڑتاہے کہ ’’علم و ادب کا جنازہ ہے ذرا دھو م سے نکلے‘‘ اس لئے کہ ان ایوارڈ دو، لو، نمونوں کو دیکھنے کے بعد یہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ کیا ہے؟ ایساکیوں؟ اور مقام حیرت کہ ! یہ افراد ایوارڈ کے حقدار مگر کیسے؟ بات ایک بھی ڈھنگ کی نہ، طور طریقہ قابل تعریف نہ، کالم کہانی میں میعار، کوالٹی بات کوبھی نہ، چند ایک رائٹر، مصنف کو چھوڑ کر سارے نکمے، اہل بنے اور بنائے بیٹھے ہوتے ہیںاو راصلی اہل و دانش حیرت و تجسس کی تصویر بنے ایسے نمونوں کو عجیب و غریب نظروں سے تکتے ہوئے صحافت کے معیار اور علم و دانش کے یوں سر محفل سرعام جنازہ نکلنے پر افسردہ و پریشان کہ اچھے اچھے صحافی، لکھاری، مصنف، ڈرامہ رائٹرز دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں اور ایوارڈنااہل لے اڑتے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ملکی لیول پر شاندار صحافتی خدمات کے حامل افراد محروم تماشہ بنے بیٹھے ہیں اور چند بے نام لوگ ’’ایوارڈ لہرائے تقریب ‘‘ میں ہاتھوں میں ایوارڈ، گولڈ میڈل پکڑے نظر آتے ہیں۔ کیا ہمارا ادب اتنا ہی حال و بے حال ہوگیا ہے کہ انہیں ادب کی دنیا کے درخشندہ، چمکتے ستارے، نامور صحافی، کالم نگا ر،مصنف،سب سے بڑھ کران سب کو اس مقام اورحیثیت پر پہنچانے والے اخبارات کے ایڈیٹرز تو بالکل ہی نظر نہیں آتے، نظر آتے ہیں تو چند گھس بیٹھیے، بہروپیے کہ جن کا نہ کوئی معیار ہے، نہ مقام اور نہ ہی کوئی خاص صحافتی خدمات۔ افسوس ملک پاکستان کی صحافت کا حال انتہائی نہ گفتہ بہ ہے کہ یہاں کچھ خوشامدی ،فریبی ، جی حضوری کے دلدادہ افرادکا ایک ایسا ہجوم او راکٹھ سا ہے کہ جس میں نقلی تو بکتا ہے، اصلی کی کسی کو خبر اور پہچان ہی نہیں ہے اور ہمارا حال اس عطار جیسا ہو چکا ہے کہ ’’ کیسے سادہ ہیں میر کہ بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطارکے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘ اور صاحب علم و دانش ان کے پاس سے بھی نہیں گزرتے۔ یہ بات صحافت کے میدانوں میں اچھی بات نہیں ہے۔ ایسے گئے گزرے ایوارڈ دینے والے افراد / تنظیمات کو چاہیے کہ ایسی ایوارڈ تقریبات سجانے سے پہلے ’’مخصوص افراد‘‘ کالیبل بھی ایوارڈپر لگا دیں تو شاید زیادہ مناسب ہو ۔’’تو میرا میں تیرا‘‘’’تو مجھے قبول میں تجھے قبول‘‘ ’’تو مجھے ایوارڈد ے میں تجھے ایوارڈ دوں‘‘ نے درحقیقت ہماری صحافتی اقدار کا جنازہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے اور بدلے میں دیا کیاہے چند چاپلوس، خوشامدی ٹائپ، ہر چیز سے بے بہرہ، جاہل، کم ظرف، بات کے ڈھنگ سے قطعی نا آشنا، غیر تربیت یافتہ لوگ، صحافت اور علم و ادب کو ایسے افراد کی کوئی ضرورت نہ، گوشہ صحافت میں حقیقی علم و دانش کایاپلٹ افراد کی تلاش و مقام ہی اصل ادب اور یہی حقیقی فریضہ ، بات تلخ ہے مگر ہے سوچنے کی۔