جیل بھرو یا مساجد؟

ملک دیوالیہ ہوا یا نہیں لیکن عوام الناس کے دماغوں کو چلانے والوں کا ذہنی و فکری دیوالیہ پن واضح ہو گیا ہے اسے بھی نہ سمجھا تو بہت دیر ہو جائے گی اور ان سب عیارانہ چالوں کو سمجھنے کے لیے آپ کا صاحب علم و فہم ہونا بہت ضروری ہے علم و فہم کوئی فٹ پاتھ پر بکنے والا برگر نہیں کہ جھٹ پٹ اور وافر مقدار میں فوری تیار ہو جائے عمریں گزر جاتی ہیں تب جاکرچمن میں دیدہ ور پیدا ہوا کرتے ہیں ہم آج کل ہر اک شے کے شاٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں بابا فوڈ یو ٹیوبر کک سے بھی افراد شاٹ ریسپیز کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ پانچ سے دس منٹ میں اپنی زندگی بھر کی ریاضتوں کے حاصل طریقے بیان کر دیا کرتے ہیں اسی طرح کے مختصر ،مستند مگر انتہائی جامع علم و فہم کے بیانات جاننا چاہتے ہیں تو جمعوں کے خطبوں سے پہلے کے دروس نہ چھوڑا کریں ملکی سیاست پر ہفتے کے ساتوں دنوں کے چوبیس گھنٹوں میں الیکٹرانک میڈیا میں معاوضہ لیکر لڑوانے والا گھمسان کا رن پڑا دیکھتے ہی ہیں بلکہ بغیر اکتائے دیکھتے چلے جاتے ہیں تو ہفتے میں ایک بار ان بے لوث علم و فہم کے حامل افراد کے خطبات بھی سن لیں تو شاید ان مایوسیوں کے اندھیروں سے نکل آئیں ابھی کل ہی جامعہ کراچی میں نماز جمعہ سے پہلے امام صاحب کے خطبے سے پہلے کے درس میں ایک جملے نے چونکا دیا

تم جیل بھرو تحریک کے بجائے مساجد بھرو تحریک کیوں نہیں چلاتے؟

واقعی یہ تو ہم نے بھی نہیں سوچا تھا کہ رحمٰن کے خالص بندے تو آزمائش میں مزید اسی سے جڑ جاتے ہیں چمٹ جاتے ہیں اس بچے کی طرح کہ جسے ماں مارتی ہے تو اسی کے آنچل میں چھپ کر اپنے آنسوؤں کو بہاتے ہیں اور اس محبت بھری ڈانٹ اور بعض اوقات مارکٹائی کے بعد معافی تلافی کا دور ہوتا ہے اور بس زندگی میں طربیہ کہانیوں جیسا جملہ نمو پاتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

اس ہنسی خوشی سے پہلے آزمائش و ابتلاء کا وہ امتحان وہ ٹریننگ کورس کہ جس کے بعد خالق اور خلق کے درمیان طالب و مطلوب کے درمیان محب اور محبوب کے درمیان روابط بڑھتے ہیں ،محبتیں بڑھتی ہیں ،تعلقات پروان چڑھتے ہیں اور پھر خوشیاں اور مسرتیں ضرب پا کر تقسیم ہوجاتی ہیں۔

ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے نوحے ،یہ ملک نہیں کھپے گا، بس دس سال کی مزید کہانی ہے ،بن گیا تو زیادہ نہیں چلے گا یہ جملے اس ملک کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کو بطور گھٹی دئیے گئے تھے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ 48 کا محاذ ،65 اور 71 کا محاذ کارگل و ضربِ عضب لال مسجد و وزیرستان ،لہورنگ کراچی اور گلگت بلتستان سے بلوچستان تک

جی ایم سید سے باچا خان،بھٹو سے شیخ مجیب الرحمٰن اور الطاف حسین سے منظور پشین تک کی داستانیں گزر گئیں اس وطن کو قائم رہنا تھا سو قائم رہا دور ایوبی کی” مہنگائی” پر تختہ حکومت پلٹی تو بھٹو کی پسپائی پر بھی خون کی ندیاں بہنے کی آس والوں کی آسیں پوری نہ ہو سکیں اس لئے بھٹو اب بھی زندہ ہی رکھا گیا ایسے میں پاکستان کیسے مر سکتا ہے اس کی آخری سانسوں کی ہوائیاں اڑانے والے کیسے منہ بھر بھر کر ایسی باتیں کرتے ہیں اور سننے والوں کی برداشت پر حیرت کہ جو یہ جانتے ہوئے بھی مفلسی ،فقر و فاقے سے ڈرانے والے خود بھی شیطان کے پیروکار ہیں اور عوام کو بھی اس کا پیرو کار بنانا چاہتے ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا بلکہ ماضی میں ہوا بھی کرتا تھا کہ من حیث القوم جب جب آزمائے گئے ہم نے جیلیں نہیں مساجد بھردیں مجھے آج بھی یاد ہے بچپن سے سن رہے ہیں کہ کراچی میں طوفان آنے والا ہے جب سوشل میڈیا کا غلغلہ مفقود ہوا کرتا تھا اس دور میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر طوفان کی خبر نشر ہونے سے لے کر اس کے ٹل جانے تک نہ صرف کراچی والے بلکہ کراچی والوں سے محبت کرنے والے اندرون و بیرون ممالک تک میں دعاؤں،مناجات ذکر اذکار کی کثرت سے رب کو راضی کیا جاتا رہا اور آج بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی دعاؤں اور کسی کونے میں چھپے چند افراد کی اجتماعی استغفار کی برکات ہیں کہ ہم ڈیفالٹ ہوتے ہوئے ملک میں کہیں تین وقت،کہیں دو وقت اور کہیں ایک وقت ہی سہی پیٹ بھر رہے ہیں۔

ہمارے مسائل میں کھانا تو ہے ہی نہیں وہ تو سڑکوں چوراہوں پر کیمپ لگا لگا کر بھی کھلایا جا رہا ہے سیلاب اور دیگر آفت زدگان کو بھی مل ہی جاتا ہے ہمارا ملک ڈیفالٹ نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے یہاں کھانا کم نہیں پڑا یہاں افراد کے خصوصاً یہاں کی اشرافیہ کے انفرادی ،اجتماعی،اخلاقی ،فکری عملی اور ذہنی معاملات ڈیفالٹ ہو گئے ہیں کہ کہیں جائداد کو بٹوارے سے بچانے کو لڑکی کی قرآن سے شادی کرادی جاتی ہے تو کہیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے” کاری” کو قربان کر کے اپنے ہدف کو شکست فاش دی جاتی ہے، کہیں عورتوں کو قرآن سروں پر اٹھا کر امان مانگنے پر تیزاب سے جلا کر اولاد سمیت قتل کر دیا جاتا ہے، کہیں بچوں پر جنسی تشدد کرنے والوں کو خود اسمبلیوں میں بیٹھنے والے تحفظ دیتے نظر آتے ہیں، کہیں حدود کی سزاؤں میں من مانے اضافے اور کٹوتیاں ہیں تو کہیں فیمینسٹ تحریکوں کے روحِ رواں کے اپنے قافلے تضحیک نسواں کے جرائم سے آلودہ ہوتے ہیں، کہیں مہنگائی کا رونا رونے والے سیٹھ اپنی بھٹی کے دیہاڑی دار مزدور کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، کہیں کوئی ابراج کسی کے الیکٹرک کے ذریعے عوام کے نرخرے پر سودی کند چھری سے وار کرتا چلا جاتا ہے، کہیں کسی کی نکاحی خاتون کو مسلکی چھوٹ کی آڑ میں اپنا کر حکمرانی کے تعویذ گنڈے کرائے جاتے ہیں تو کہیں ملک کا مرکزی بینک خود ہی گروی رکھ کر عوام کے ارمانوں کے کرتے پر کرپشن کے بھیڑیوں کا خون لگا کر سیاست کی جاتی ہے یہی اک قوم کے ڈیفالٹ ہونے کی نشانیاں ہیں روٹیاں ،بوٹیاں اور ذخیرہ اندوزوں کے اناج کی کوٹھیاں کم یا زیادہ ہونے سے ملک ڈیفالٹ نہیں ہوا کرتے بلکہ مذکورہ بالا تمام مسائل کی وجہ سے افراد ڈیفالٹ ہو جاتے ہیں اور ایسے ڈیفالٹ شدہ افراد کو تو ویسے ہی غیرت کے مارے خود کو سنگسار ہونے کے لئے پیش کردینا چاہیے تاکہ جان تو آسانی سے نکل سکے مگر یہ خود کو پیش کیا جانا ندامت کے ساتھ ہو نہ ڈھٹائی کے ساتھ میں نہ مانوں کہتے ہوئے جیل بھرو تحریک چلانے کے بجائے استغفار کرتے ہوئے مساجد بھرو تحریک چلانے کی ضرورت ہے تاکہ من حیث القوم ہم سب پر رحم کیا جاۓ اور ہم رب العالمین کی بلیک لسٹ سے نکل کر کلین اور گرین ،اسلامی اور خوشحال پاکستان کی لسٹ میں شامل ہو کر حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ روشن منور اور خوشحال پاکستان بن سکیں۔