بے خود کردینے والی مہنگائی

صبح صبح موڈ تب خراب ہوتا ہے جب آپ کے خیال کے مطابق کام نہیں ہوتے اس خیال سے خیال آیا یہ چھمو بھی ناں بہت منہ پھٹ ہو گئی ہے کہہ رہی تھی۔۔۔

” باجی وہ سامنے والوں کی نئی بہو مجھے کہہ رہی تھی کہ “تمہارے تو مزے ہی مزے ہیں اس مہنگائی میں بھی تمہیں دو ٹائم رنگ برنگے کھانے مل جاتے ہیں روز ایک نئی “وریٹی” (ورائٹی) ہوتی ہوگی تمہارے دسترخوان پر “. باجی اسے یہ نظر نہیں آتا کہ اتنی محنت کے بعد بھی ہم ماسیوں کی تنخواہ کوئی نہیں بڑھاتا اپنے باسی ترکے کھانے دیکر احسان چاڑھ ( چڑھا) کر ہمیں جو وریٹی والے کھانے دیتے ہیں ناں اکثر ان میں سے سڑ چکے ہوتے ہیں جب پھینکنے لگتے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں پکڑا کر احسان کر دیتے ہیں قسمیں باجی کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ کسی کے گھر سے بچا ہوا کھانا نہ لوں مگر کیا کریں اکثر ٹھیک کھانا بھی ہوتا ہے تو ہمارا “ڈنگ ٹپ” ( وقت گزر) جاتا ہے ورنہ کس کا دل چاہتا ہے ایسی “وریٹی” لینے کو ۔

وہ جلدی جلدی جھاڑو دینے کے ساتھ بولتے ہوئے دوسرے کمرے میں نکل گئی اور میں نے سوچا بات تو درست ہے ہم کتنے دھڑلے سے دوسروں کے معاملات پر بیانات داغ دیتے ہیں کہ ” فلاں کا میاں تو اس کی مٹھی میں ہے”

اب کون بتائے اس ” مٹھی میں بند کرتے کرتے سالوں اس خاتون نے اپنی ذات کو اپنے پندار کو کتنے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہوگا تو جاکر لوگوں کے سامنے یہ تصویر نظر آئی کتنی چیخیں، تپسیا، قربانیاں ہوں گی مگر وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں ہاں میں ہاں ملاتا ہوا شوہر سب کو نظر آنے لگتا ہے جیسے چھمو کو دیئے کھانے کے شاپر سب کو نظر آجاتے ہیں مگر چھمو کے اندر کی چیخیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں من حیث القوم ہم بہت ظالم ہو چکے ہیں ہمیں کسی کی آنکھوں کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا اور اپنی آنکھ میں پڑے زرے کو بھی بہت بڑا سمجھ کر دکھی ہورہے ہوتے ہیں ہر صبح عافیت، صحت، سلامتی اور دیگر انعامات پاکر جوڑ جوڑ پر شکرانہ واجب ہونے کے باوجود ہم دوسروں کی پلیٹ، دوسروں کے گھر، دوسروں کی خوشی اور دوسرے کی نعمت دیکھ کر اپنی ہر اک شے حقیر جان کر ناقدری کے مرتکب ہو رہے ہیں آج جہاں روٹی کھانا بھی ایک عیاشی بن گیا ہے ایسے میں پڑوسی کے برگر اور پیزا نے ہمیں” غربت” کا احساس دلا رکھا ہے آج بچے گھر میں نعمتوں کی فراوانی چھوڑ کر کے ایف سی اور میکڈونلڈز کے برگر نہ کھا سکنے کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ “مہنگائی” کا دکھ اس قوم کو مار رہا ہے یا نارسائی کا ؟ یہ قوم “کچھ نہ ہونے” کے کرب میں مبتلا ہے یا “بہت زیادہ پالینے ” میں پسندیدگی کا “بھگار” نہ لگنے کا دکھ مار رہا ہے پچھلے جمعہ کے خطبے میں سنا تھا امام صاحب فرما رہے تھے کہ چیزوں کی قیمتیں اللہ رب العزت کے ہاتھوں میں ہیں وہ خود انہیں کنٹرول کرتا ہے اس رب العالمین کا وعدہ ہے اپنے بندوں سے کہ شکر ادا کرو میں تمہاری نعمتوں کو بڑھا دوں گا کفرانِ نعمت کرو گے تو انہی نعمتوں کے لئے ترسنا پڑے گا ۔

کہیں ایسا تو نہیں یہ مہنگائی میرے اپنے ہی کرموں کا پھل ہے جو میں نے کمایا پڑوسن سے حسد کرتے ہوئے، رشتے داروں کے کھلے ہاتھوں خرچے دیکھ کر یہ تو کبھی نہیں سوچا کہ کہیں اس نے صدقات کے ذریعے اللہ سے تجارت تو نہیں لگا رکھی، یہ فروانیاں شکر گزاری کی شاخسانیاں تو نہیں ؟ یہ سب شیطان سوچنے ہی کہاں دیتا ہے وہ تو بس ٹھک سے باور کراتا ہے وہ دیکھ فلاں کے پاس اتنا زیادہ تیرے پاس کیا ہے ؟ کاش اس وقت ہم اس شیطان کو بتا سکیں کہ میرے پاس میرا ایمان ہے، صحت ہے، عافیت ہے، سلامتی ہے آج صبح کا ناشتہ بھی ہے کالی چائے اور ایک پاپا ہی سہی دوپہر کو کھانے کے لیے آٹا بھی ہے مٹھی بھر ہی سہی میں تو ابن آدم ہوں ناں ایک لقمہ بھی کافی ہے مجھے میرا ملک زلزلے کی پٹی پر موجود ہونے کے باوجود رب العالمین کے فضل سے ابھی تک ہلایا نہیں گیا گزرے سالوں کے زلزلے، سیلابوں کے باوجود میں ابھی زندہ ہوں میرے ملک پاکستان کا اسٹیٹ بینک بھلے سے ظالموں نے بیچ دیا ہے میرے منہ میں خاک سنا ہے دیوالیہ ہونے والا ہے تو اللہ تو تب بھی ہمارا رب رہے گا ناں گندم، جو، گنا، کپاس، کینو، سیب انگور انار سب کچھ اگاتا رہے گا پیاز آلو ٹماٹر ہم اس کی زمین پر محنت کر کے حاصل کرتے رہیں گے اللہ ڈیفالٹ نہ کرے تو بندہ یا ملک ڈیفالٹ نہیں ہو سکتا آئیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر ہر اک نعمت پر کہیں الحمد للہ !

بس پھر جادو دیکھیں ایک نوالہ بھی کافی ہو جائے گا اپنے گھر کی دال میں بھی گوشت کا مزہ آنے لگے گا اور شکر کے ثمرات پھیلتے چلے جائیں گے اس بار مہنگائی کے خلاف شکر کا دھرنا دے کر بھی دیکھیں وقت کے فرعون اور نمرود شکست سے دوچار ہو جائیں گے اور آپ شکر گزار قوم بن کر ذلت کی بوٹیوں کے بجائے عزت کی چٹنی سے روٹی کھانے والے حکمران منتخب کرنے کے قابل ہوں گے

Absolutely not

اور

Do more

کے نعروں سے شبستانوں میں اندھیرا کرنے کے بجائے

شکر الحمد للہ کے نعرے لگا کر وقت کے ایوانوں سے سود کی بوٹیاں کھانے والے عیاش جابر سلطانوں کو نکال باہر کریں گے

بس صرف اک بار مہنگائی اور نارسائی کے فرق کو سمجھ لیجئے بیڑا پار ہوجائے گا ۔