میڈیا سیل تربیتی ورکشاپ

٭٭٭روداد٭٭٭

علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو مخاطب کرکے، ستاروں سے آگے ان کی منزل اور مشن کی سربلندی، کارواں کی صورت میں تنظیم اور گرد_راہ کی علامت میں برق رفتاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رضائےالٰہی کو نصب العین قرار دیا اور فرمایا:

پرے ہے چرخ_نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گرد _راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے !

حکیم الامت، مصورپاکستان کی اس فکری راہنمائی کی روشنی میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی نے دو روزہ میڈیا سیل تربیتی ورکشاپ کا انعقاد مرکز خواتین منصورہ میں کیا جس میں وسطی اور شمالی پنجاب سے خواتین نے شرکت کی۔ ورکشاپ سے مرکزی قائدین اور صوبائی نظم نے بھی خطاب کیا۔ ورکشاپ کا آغاز صوبائی نگران آئی ٹی مدیحہ مسعود کی تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا “داعیء دین اور عصرحاضر کے چیلنجز” کے موضوع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی، محترمہ ثمینہ سعید نے اپنے دلنشین اور مضبوط لہجے میں فرمایا کہ آپ کا اس تربیت گاہ میں آنا اور بیٹھنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ انسان جو چاہے کر سکتا ہے۔ ہم جس محاذ پر ہیں، داعی کے اوصاف اور دعوتدین کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ موثر دعوتی حکمتِ عملی، اخلاص، خوش خلقی، خوفالہی اور توکل،شجاعت و بہادری سے کلمہء حق کہنا، مخالفین کی زبان میں بات کرنے کی مہارت، دین و دنیا کے علوم سے واقفیت، وقت کا بہترین استعمال مطلوبہ اوصاف ہیں۔ غفلت، تکبر، غصہ، ریا کاری، حسد، بخل، عصبیت، گمراہیوں سے بچنا ضروری ہے۔

حالات حاضرہ کے چیلنج کا مقابلہ، مردہ قوم کے جسم میں جان ڈالنے کے کام ، دعوت سے انجام پاتے ہیں۔ صاحب دعوت کی دعا سے مردوں کے زندہ ہونے کے واقعات بھی عمل میں آجاتے ہیں۔ داعی محبت و خلوص کا پیکر بن جائے اور لوگوں کو خود سے مانوس کرے۔ اپنے مشن کی حقانیت پر کامل یقین ہونا چاہیے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ لوگو ! کلمہ پڑھ لو ، عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے۔ دوسروں کے اعتماد پر پورا اترنا بھی حضور کی سنت ہے۔ مسلمان جب ذمیوں کی حفاظت نہ کرسکے تو حضور ﷺ نے سارا جزیہ واپس کردیا۔ دنیا میں مسلمانوں کا کردار، اسلام کے فروغ کا سبب بنا تھا ۔ مخالفین کی ذہنی استعداد، رحجانات کو سامنے رکھیں۔ جس داعی کا کردار حیا والا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کو بھی اس سے حیا آتی ہے۔ اپنے گھر والوں کو دعوت دینا نہ بھولیں۔ اس وقت سیکولرازم، انسانی حقوق اور آزادیء رائے کی آڑ میں موجود ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن اسلام نے اس کے بھی اصول دئیے ہیں۔ معاشی تنگ دستی، کفر تک لے جاتی ہے، اسلامی نظام معیشت رائج کرنا ہوگا۔ دوسری قوموں سے مکالمہ کے لئے ان کی زبانیں سیکھنا ہوں گی۔ ہم نے چینی زبان نہیں سیکھی لیکن چینیوں نے اردو سیکھ لی ہے۔ فرقہ واریت سے بچتے ہوئے، دنیا کے سامنے اسلام کو بطور مکمل ضابطہء حیات پیش کرنا ہوگا۔ انقلاب_امامت کے لئے الیکشن میں مطلوبہ ورک فورس کی ضرورت ہے۔

مرکزی نگران میڈیا سیل محترمہ عالیہ منصور نے “عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کار_ بے بنیاد” کے عنوان سے پریزینٹیشن پیش کی۔ آپ نے کہا کہ “عصا” سے مراد قوت و مہارت ہے۔ تربیت یافتہ داعی، پیغام پہنچانے میں زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے “رب الشرح لی صدری” کی دعا سے آغاز کرنا سکھایا، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے دل ودماغ کام پر مرکوز ہوجاتے ہیں۔ حدیث کے مطابق، طاقت ور مومن، کمزور مومن سے بہتر ہے۔ باطل کو رد کرنے کا آرٹ آنا چاہئیے۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں، ایمان اور اخلاص کے ساتھ کام کرتے ہوئے منفی ردعمل Negative Marketing سے بچیں۔ “مہارت” سیکھے ہوئے علم میں مذید کمال حاصل کرنے کا نام ہے۔ علم_ نافع سے مراد وہ علم ہے جو دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے۔

حضور ﷺ نے بھی علاج سے پہلے پوچھا کہ ماہر طبیب کون سا ہے؟ یعنی مہارت مطلوب ہے۔ مہارتوں کی کئی اقسام ہیں مثلاً ورثہ میں ملنے والی مہارتیں، اپنی مدد آپ سے ملنے والی مہارتیں، خصوصی علمی مہارتیں وغیرہ، ان کے علاوہ قائدانہ مہارتیں، ٹیم ورک مہارتیں، ابلاغی مہارتیں، تنقیدی سوچ کی مہارتیں، وقت کی موثر تنظیم کی مہارتیں، مسائل حل کرنے کی مہارتیں، تکنیکی مہارتیں، معاشی منصوبہ بندی کی مہارت، اپنے اندرونی خوف پر قابو پانے کی مہارت سیکھنا بھی اشد ضروری ہے۔ یہ سمندر کی گہرائی سے موتی تلاش کرنے کا کام ہے۔ مطالعہ، اخذ کرنے کی صلاحیت، ہر روز کچھ نیا سیکھنا، خود کو پرسکون رکھنا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا، اپنی ذاتی زندگی کی پرائیویسی برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی ضروری ہے۔ دور_دجل کی علامت یہ بھی ہے کہ کچھ بھی پرسنل نہیں رہے گا۔ اپنے مشن کو جوش و جذبہ سے انجام دینا اور کاموں کا ریکارڈ رکھنا آپ کی ذمہ داری بھی ہے اور امانت کی ادائیگی بھی۔ یاد رکھیں کہ ناکام وہی ہوتے ہیں جو کام کرتے ہیں۔ دوبارہ کوشش میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔ جو کچھ آپ یہاں سے سیکھ کر جارہے ہیں، وہ امانت ہے جسے آپ نے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ پہلے دن کی اناؤنسمنٹ نائب نگران مرکزی شعبہ آئی ٹی شازیہ عبدالقادر نے کی۔

اگلا پروگرام صدر حریمِ ادب عالیہ شمیم نے “حریم ادب، کیا، کیوں، کیسے” کے عنوان سے کنڈکٹ کروایا۔ آپ نے کہا کہ مسلمان ادیب کی ذمہ داری ہے کہ اسلام جسے حق کہتا ہے، ادیب بھی اسے حق سمجھے، اسے دوسروں پر ظاہر کرے اور منوائے، باطل کو باطل سمجھے اور اس کا اظہار کرے۔ ادب کو کسی نہ کسی نظریہء حیات کا پابند ضرور ہونا چاہئیے ورنہ ادب کی افادیت ختم ہوجاۓ گی۔ ٹیم بنا کر شہد کی مکھی کی طرح مسلسل کام کریں۔ تحریر کی مقبولیت ، 80٪ لکھاری کی محنت پر اور 20٪ خوب صورت عنوان پر منحصر ہے۔ مطالعہ انسانی فطرت کا ہو،کائنات کا یا علمی کتب کا، مطالعہ کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے جو جسم کے لئے ورزش کی۔ تحریر لکھنے سے پہلے اسکرپٹ لکھنا ضروری ہے۔ ایک لفظ کے مرکزی خیال سے سوچ کا آغاز کریں اور پھر سوچ کا دائرہ بڑھاتے جائیں، یہ دماغ سوزی کی تکنیک تحریر کے لئے مفید ہے۔ ہر واقعہ میں کہانی ہوتی ہے لیکن ہر کہانی میں واقعہ نہیں ہوتا۔ تنظیم میں کاموں کی رپورٹ دینا ضروری ہے۔ اپنی منصوبہ بندی، وسائل، افرادی قوت، اہداف کو حاصل شدہ نتائج کو تنقیدی نظر سے جانچنے کا عمل رپورٹ کہلاتا ہے۔ حالات حاضرہ پہ فوری قلم اٹھایا کریں۔ عالیہ شمیم نے فی البدیہہ موضوعات دے کر حاضرینِ محفل سے تحریریں لکھوائیں۔

شمالی پنجاب کی ناظمہ ثمینہ احسان نے”وہی جہاں ہے جسے تو کرے پیدا” کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ، اہمیت کے لحاظ سے سب سے بڑا محاذ بن چکا ہے، اس پر جھوٹ کو اتنا پھیلایا جارہا ہے کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ جب شر اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم اپنے پیغام کو لوگوں تک اس طرح کیوں نہیں پہنچا پاتے؟ جب کہ ہمارے پاس جو موجود ہے وہ سچ ہے! سچ کو پھیلانے والے بن جائیں کیوں کہ سچے لوگوں کا ساتھ اللہ تعالیٰ بھی دیتا ہے۔ میڈیا کے محاذ پر مضبوطی سے کھڑے ہونے والے بن جائیں۔

“نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر ” کے عنوان سے آئی ٹی ممبر خالدہ شہزاد نے سرگرمی کروائی اور بتایا کہ کمپیوٹر کی ڈیوائس نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ حضور ﷺ کا انداز_بیان مختصر اور جامع تھا۔ یہی ہمارے پیغام کا انداز ہونا چاہئے ۔Canva کے ذریعے پیغام کی تزئین و آرائش کرکے اسے خوب صورت بنایا جاسکتا ہے۔

“مجھے رب قیمتی سمجھے” کے موضوع پر مرکزی میڈیا سیل نائب نگران سعدیہ حمنہ نے گفتگو کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ سوشل میڈیا پر کام کرتے ہوئے، ہم پر شریعت کے وہی احکامات لاگو ہوتے ہیں جو بحیثیت مسلمان ہم پر اسلام نے عائد کئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دعوت کے ابلاغ کے ذریعے آخرت کی کامیابی کا اعلیٰ ہدف ہمارے پیش_نظر رہنا چاہئے۔ اپنے اسٹیٹس پر ذاتی زندگی کو عام نہ کریں، پرائیویسی لگانے سے ہم بہت سے فتنوں سے بچ سکتے ہیں۔ تحریکی سرگرمیوں کا ابلاغ ہمارا اولین مقصد ہے۔

بزرگ خواتین کو اسٹیٹس لگانا سکھادیں۔ الیکشن کی مہم میں نظم کی ہدایت کے مطابق کام کریں۔ جس ایشو پر نظم خاموشی اختیار کرے، آپ بھی خاموش رہیں۔ بعض اوقات ہم فیک نیوز پر ری ایکٹ کرکے انھیں وائرل کردیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پیجز اور اکاؤنٹس کو لائک کریں اور کروائیں۔ آپ ڈیجیٹل داعی ہیں، خاموش لوگوں کو جگائیں۔

“تمہارے عزم سے دنیا بدلتی جائے گی” ،کے عنوان سے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فریحہ اشرف نے کہا کہ شعبہ نشرواشاعت کے کارکنان کی بنیادی خصوصیات اخلاصِ نیت، یکسوئی، مطالعہ، مستعد و باخبر رہنا، جلد بازی کی بجائے حکمت سے کام لینا ہیں۔ خواتین صحافیات سے رابطہ اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا ضروری ہے۔

تربیتی ورکشاپ کی کمپیئر، قدسیہ مدثر نے توجہ دلائی کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ لوگوں کو مسلمان بناکے چھوڑیں بلکہ جتنے اسباب و وسائل میسر ہیں، انھیں استعمال کریں۔ ورکشاپ میں وسطی پنجاب کی میڈیا کوآرڈینیٹر ماریہ ڈار نے انتظامی امور کی نگرانی کی، ان کا ساتھ نائبین مدیحہ مسعود اور ارم ریاض نے دیا۔ شمالی پنجاب سے ورکشاپ کی کوآرڈینیٹر راحیلہ ارم تھیں۔ وسطی پنجاب سے صوبائی حریمِ ادب کی نگران عصمت اسامہ، لاہور حریمِ ادب نگران شاہدہ اقبال، ان کی نائبین نبیلہ شہزاد، اسماء حبیب، شعبہ نشرواشاعت سے شاذیہ محمود سمیت لکھاری خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ میڈیا سیل ورکشاپ کا اختتام دعا سے کیا گیا۔ میڈیا سیل ورکشاپ جیسے پروگرام نہ صرف میڈیا کے محاذ پر موجود کارکنان کی فکری و عملی تربیت کے لئے ضروری ہیں بلکہ ایک نصب العین سے وابستہ افراد کے باہم تعارف اور تعلق میں مضبوطی کا موثر ذریعہ بھی ہیں۔