تحصیل علم کے بعد درس و تدریس کے لیے ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہوئی کہ جہاں نہم، دہم، گیارہویں اور بارہویں جماعت کی طالبات کوٹ اسکارف لیا کرتیں تھیں۔اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ شہر بھر میں پردے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔چونکہ یہ بڑا اور معروف ادارہ تھا۔اس لیے دوسرے اسکولوںنے بھی اس کی تقلید کی۔والدین خوش تھےکہ بچیاں عصری علوم سے بھی آشنا ہو رہیں تھیں،پردے اور دینی ماحول سے بھی بہرہ مند ہورہیں تھیں،لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ سیرو تفریح فئیرویل پارٹی پر مرد وخواتین اساتذہ اور طلبہ طالبات اکھٹے ہوکر ایک مخلوط ماحول کی صورت اختیار کر لیتے اور پردے کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔
گروپ اسٹڈی کے سلسلے میں جب طالبات کا واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا تو ننھی معصوم کونپلوں کی افسوسناک ڈی پیز دیکھنے کو ملیں بچیاں پردے سے بے نیاز سیلفیاں بنا رہی تھیں۔ ساتھ منہ کے پاؤچ بنائے اپنی سیلفیوں کے فحش ہونے سے قطعاً ناواقف تھیں۔میرا تعلیمی دور کوئی زیادہ پرانا تو نہیں تھا۔لیکن سوشل میڈیا کے تیز برے استعمال نے بہت آفت پھیلائی تھی۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نقالی بن گیا ہے۔ماڈرنیسٹ (جدیدیت پسند) کہلانے کے شوق سے نکلنے کو تیار ہی نہیں اور اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ منفرد لگیں۔یہ سوچنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔آپ مقابلہ کرتے ہوئے کہاں تک جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ دیا ہے۔ اس کا اظہار مغربی طرز اپنائے بغیر کیا جاسکتا ہے۔کھائیں، پئیں اچھے گھر میں رہیں اچھی سواری کریں اور اچھا لباس پہنے لیکن اس سب میں انگریز یا دوسری اقوام کے انداز اپنانا دم کٹے بندر بننا کے مترادف ہے۔انسان اپنی اقدار و روایات کے ساتھ زندہ رہتا ہے تو باوقار رہتا ہے۔مغرب کا سروے کیجئے ان کے اخلاق و کردار سب گراوٹ کا شکار ہیں۔
سیرتﷺکے پروگرام میں اک طالبہ کو جینز شرٹ پر ٹوکا کہ بیٹا کم ازکم آج کے دن ساتر لباس پہنتیں۔کولیگ جو بچی کی خالہ تھیں ناراض ہوگئیں۔اور کہنے لگیں کہ یہ “آپ کا ایشو نہیں”لفظوں کا پتھر پڑا بقول شاعر:
ہم نے سیکھا ہے اذان سحر سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ ہی سہی ہم نے صدا دینی ہے
تبلیغی حکمتوں پر غوروخوض ضرور کرتی ہوں لیکن لیکن امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حکم سے دستبرداری کو تیار نہیں۔ایسے میں مجھےایک انڈین کالج کی طالبہ مسکان کا واقعہ ذہن میں آیا۔پچھلے سال یہی فروری کا مہینہ تھا جب اسکوٹر پر سوار پر اعتماد چال اور اسکارف میں مسکان نے بدمعاشوں کے جتھے میں “نعرہء تکبیر اللہ اکبر” بلند کیا۔بظاہر کمزور دکھائی دیتی لڑکی نے دلیری اورجرات سے ایسے للکارا جیسے فرعون کے دربار میں موسیٰ اور نجاشی کے دربار میں جعفر بن طیار نے للکارا تھا۔لمحہ فکریہ ہے کہ مسکان دارالکفر میں اپنے پردے کا دفاع کرتی ہے۔اور ہم دار الایمان میں اپنے اسکارف کی ناقدری کرتے ہیں۔دار الکفر کی مسکان صحابیات رضی اللہ عنہا کو آئیڈیل بناتی ہے۔مگر افسوس ہے کہ ہماری کالج کی طالبات لتا منگیشکر کو بلبل ہند کہتی ہیں۔غیر کی روایات پروموٹ کرتیں ہیں۔ان کے تہوار مناتیں ہیں۔
اُمت مسلمہ کی بچیوں!آپ علم کی دنیا میں موجود ہیں۔علمی دنیا میں کسی موضوع پر دو طرح کی دلیل طلب کی جاتی ہے۔پہلی نقلی اور دوسری عقلی نقلی دلیل جو جوں کی توں قرآن و حدیث سے کاپی کی گئ ہو۔دوسری عقلی دلیل یعنی غور وفکر سے کام لے کر مختلف نشانیوں کو ڈھونڈ کر اپنے مقصودو منزل تک پہنچا جائے۔مسلم کے پاس نقلی دلیل کتاب و سنت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔لیکن قرآن و حدیث سے کاپی کی گئ دلیل لبرلز طبیعت کے موافق نہیں۔لبرلز پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ عورت سب سے زیادہ غیر محفوظ مسلم معاشرے میں ہے۔
اے اسلام کی بیٹیو! ایمانی تقاضاہے کہ حکم ربی تو تسلیم کریں۔رب تعالیٰ کا کوئی حکم بغیر حکمت اور لاجک کے نہیں۔جب کائنات کے رب نے کہہ دیا کہ پردے کے ساتھ پہچان لی جاؤ گی۔ستائی نہ جاؤ گی تو اپنی بےپردگی کا یہ جواز نہ دیں کہ سب ستائی جارہی ہیں۔باپردہ بھی بےپردہ کی وجہ سے ستائی جاتی ہے۔جس نے معاشرے کے مردوں کی نگاہ میں حیا باقی نہیں رہنے دی۔ایک بے پردہ عورت ستائی گئ تو لبرلز خوب چیخے باپردہ کو پردہ اُتارنے کا کہا تو وجہ پیش کرتے ہیں کہ پردے کی آڑ میں کرائم کیے جاتے ہیں۔فیمنزم ،لبرل طبقہ کہتا ہے ہم محفوظ نہیں تو اللہ نے اس حیثیت میں آپ کی حفاظت کا ذمہ لیا بھی نہیں کہ ٹک ٹاکر اور ماڈل کی حیثیت میں آپ واقعی غیر محفوظ ہیں۔پامالی مقدر ہے۔قرآن آپ کی حفاظت کا ذمہ پردے کے ساتھ لیتا ہے۔بغیر محرم کے مختصر لباس میں سڑک چوراہوں پر اداؤں کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرنا حماقت ہے۔مسلمان لڑکی کا کردار ان ہی صورتوں میں سامنے آتا ہے کہ وہ غیر مرد پر بھروسہ نہیں کرتی اور اپنے لباس پر توجہ دیتی ہے۔
نازک ترین تشویشناک صورتحال میں اپنی حیا و حجاب کی حفاظت کر کے اسلام کی مسکان جیسی جانے کتنی ہی بیٹیاں ہمیں مسلم خاتون کا اصل تشخص دکھا گئیں۔ان کی دکھائی روشنی میں اپنے حیا کے قاعدے طے کریں۔