کشمیریوں کے جذبہ ایمانی کو سلام

ہر لمحہ مچلتی ہیں تیرے من میں بہاریں

میخانہ در آغوش ،درختوں کی قطاریں

چشموں کے ترانے ہیں کہ ساون کی ملہاریں

ندیوں میں تری نغمہ آزادی کی تفسیر

اے وادی کشمیر ، اے وادی کشمیر

کشمیر جنت نظیر کے لیے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو طلوع ہونے والا آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی گہنا گیا۔ کشمیریوں پر چھائی ظلم کی رات ابھی تک اپنی صبح کے انتظار میں ہے ۔ اتنے سالوں سے بھارت نے وہ کون سا ظلم ہے جو کشمیریوں پر نہ ڈھایا ہو ۔ قیدو بند کی صعوبتیں ، خواتین کی عصمت دری ، قتل عام اور بلا وجہ کی پر تشدد مارپیٹ ۔

کانپ اٹھتا ، چلاتا ، آہ و فغاں کرتا

سانس لیتا اس دور میں گر ہٹلر کوئی چنگیز کوئی

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ کی جسم کے لئے اہمیت سے کون ناواقف ہے۔ بے قصور کشمیری ایک طویل عرصے سے دن بدن بڑھتے بھارت کے ظلم کو سہ کر بھی ہم سے قائم ایمانی رشتے کو جرآت اور حوصلے سے نبھا رہے ہیں ۔ پاکستان کو کسی بھی فورم پر کامیابی ملے کشمیر میں اس پر خوشی منائی جاتی حالانکہ ایسی ہر خوشی ان پر ظلم کے ایک نئے باب کا آغاز ہی بنی ہے ہمیشہ لیکن ان کا ہر دن پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کا دن ہوتا ۔ بھارت نے ہر ممکن حربہ آزما کر دیکھ لیا مگر وہ کشمیریوں کی پاکستان سے دوستی اور محبت کے جذبے کو نہیں مار سکا۔ کشمیری بہن بھائیوں کی اسی محبت اور حوصلے کی وجہ سے آج ہم آزادی کے مزے لوٹ رہے ۔

ہم پاکستانی بھی کشمیر اور کشمیر کے عوام سے محبت رکھتے ہیں ۔ دل دکھتا ہے کہ ہم اس محبت کو اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی طرح نہیں نبھا سکے ۔ جس جرآت اور بہادری کا مظاہرہ کشمیری کر رہے ہم بھی اگر اتنی ہمت کر لیتے تو حالات یقیناً مختلف ہوتے۔ بیڑیوں میں جکڑے ابو جندل رضی اللہ عنہُ کو معاہدہ حدیبیہ کی روشنی میں دکھتے دلوں کے ساتھ کفار کو دیا تو پھر چشم فلک نے دیکھا کے محض دو سال بعد جذبہ ایمانی سے سرشار جانثاروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اس شان سے مکہ فتح کیا کہ کفار مقابلے کی ہمت ہی نہ کر سکے ۔ اور ایک ہم ہیں کہ اپنے ملک سے لے کر پوری دنیا کے ہر فورم پر کشمیر کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور حق پر ہوتے ہوئے بھی اس کی شنوائی تو دور کی بات غاصب کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔

آتی ہے صدا سوختہ لاشوں سے مسلسل

انسان کو آواز دو انسان کہاں ہے

کشمیری جبر سہ کر بھی ہمارے لئے کھڑے ہیں اور ہم آزاد ہو کر بھی ان کے درد کا درماں نہ کر پائے۔ دن منائے، جلسے جلوس نکالے، تقریریں کیں، نعرے لگائے، قلم سے صفحات بھرے، قصیدے لکھے، قراردادیں منظور کروائیں اور حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔ جس پر ہم کھڑے ہیں یہ ایمان کا کون سا درجہ ہے ؟؟ یقیناً کشمیری عوام ایمان اور جرآت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔

کشمیریو ! تمھارے ایمان اور جرآت کو سلام۔