اسمارٹ شہر،اب خواب نہیں

چین میں کچھ عرصہ قیام کے بعد اس چیز کا بغور مشاہدہ کیا جا سکتا کہ یہاں اس وقت چینی شہر ڈیجیٹل مہارت کے ساتھ اسمارٹ ترقی کے لئے کوشاں ہیں جو روزمرہ زندگی، شہری انتظام اور دیگر شعبوں کی ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔آج چین کے بڑے شہروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عمدہ اطلاق کی بدولت سڑکیں ”اسمارٹ” ہو رہی ہیں۔ڈرائیونگ کے دوران سڑک کی حقیقی صورتحال سے متعلق بر وقت معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، شدید ٹریفک کے ہجوم سے بچنے کے لئے بہترین راستے کا انتخاب بھی ممکن ہے۔گاڑیاں، سڑکیں اور لوگ مزید مربوط ہو رہے ہیں جو ڈرائیوروں کے لیے زیادہ محفوظ ہے۔دوران سفر ملی سیکنڈ کی سطح پر معلومات کو اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔ شہروں میں نصب سینسرز، ملی میٹر ویو ریڈار اور لیزر ریڈار کے آلات معلومات جمع کرنے کے بعد مرکزی کنٹرول روم کو واپس بھیجتے ہیں،جہاں ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر سڑک پر گاڑیوں کو بھیجا جاتا ہے۔ شہر وں میں ایک جامع انفارمیشن ماڈل قائم کرتے ہوئے زیر زمین ٹریفک کے لئے اسمارٹ ٹیکنالوجی کو بھی اپنایا گیا ہے۔ہزاروں سینسرز کی مدد سے ہوا کے معیار، درجہ حرارت، اہلکاروں کی پوزیشن کی نگرانی ممکن ہے اور آگ کے خطرے کا بروقت پتہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ تو محض ایک مثال ہے کہ چینی شہروں میں اسمارٹ ٹریفک نظام کیسے فعال طور پر کام کرر ہا ہے،اس کے علاوہ بھی آپ کو جا بجا جدید ٹیکنالوجی کے کمالات دیکھنے کو ملیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی اور تکنیکی انقلاب کا ہر دور نئے انفراسٹرکچر کو متعارف کرائے گا جبکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا ہر دور معاشی تبدیلی میں بہتری لائے گا۔یہی وجہ ہے کہ چین نے حالیہ برسوں کے دوران نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں زبردست مدد ملی ہے۔چین نے انفارمیشن انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کے انضمام اور اختراع کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اقدامات کو بھی تیز کیا ہے۔ انہی ٹیکنالوجی دوست پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ گزشتہ دہائی کے دوران چین کے آپٹیکل فائبر نیٹ ورک کی طوالت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور ڈیٹا سینٹر کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔اسمارٹ ڈیوائسز کو مختلف صنعتوں اور کاروباروں میں ضم کیا جا رہا ہے جیسے کہ ٹرانسپورٹ، توانائی کی فراہمی اور صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سہولیات جیسے ای کامرس، ٹیلی میڈیسن اور آن لائن تعلیم کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جدت کے لحاظ سے، چین کے قومی سائنس و ٹیکنالوجی کے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں میں سے زیادہ تر فعال ہو چکے ہیں، جبکہ ملک بھر میں انجینئرنگ ریسرچ، انٹرپرائز ٹیکنالوجی، اور صنعتی اختراع کے مراکز مسلسل قائم کیے جا رہے ہیں۔

یوں نئے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر نے نئی ٹیکنالوجی کی تلاش کے لیے مستقل تعاون فراہم کیا ہے، ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے لیے مؤثر حمایت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو جامع انداز سے آگے بڑھایا ہے اور چین کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو بہت زیادہ تقویت بخشی ہے۔دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ ملک میں توانائی کا شعبہ بھی ڈیجیٹل، انٹرنیٹ پر مبنی، اور اسمارٹ ٹیک ماڈلز میں تیزی سے منتقل ہو رہا ہے۔ اسی باعث اسمارٹ گرڈ، کان کنی، اور بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ توانائی ذخیرہ کرنے جیسے شعبوں میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے یہ امر بھی حوصلہ افزاء ہے کہ چین اپنے 14ویں پانچ سالہ منصوبے کی مدت (2021تا2025) کے دوران تقریباً 220 قومی ہائی ٹیک زونز قائم کرے گا، جو ملک کے مشرقی حصے میں پریفیکچر کی سطح کے زیادہ تر شہروں کا احاطہ کرے گا جبکہ مرکزی اور مغربی حصوں میں پریفیکچر کی سطح کے بڑے شہر بھی اس کے دائرہ کار میں آئیں گے۔

گزشتہ دہائی کے دوران،ان قومی ہائی ٹیک زونز نے کوانٹم انفارمیشن، تیز رفتار ریلوے، بے دو نیویگیشن

سیٹلائٹ سسٹم، مقامی طور پر تیار کردہ بڑے ہوائی جہاز اور فائیو جی مواصلات جیسے شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ قومی ہائی ٹیک زونز نے اہم قومی سائنسی اور تکنیکی اہداف کی ایک سیریز میں بھی فعال طور پر اپنا کردار نبھایا ہے ، جن میں گہرے سمندر میں انسان بردار آبدوز جیاو لونگ کی ترقی، انسان بردار خلائی مشنز کی کامیاب لانچنگ اور کووڈ۔19 ویکسین سے متعلق تحقیق اور ترقی شامل ہیں۔گزرتے وقت کے ساتھ چین ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی کوششوں کو بھی عمدگی سے آگے بڑھا رہا ہے تاکہ ٹیکنالوجی سے آراستہ ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کے طور پر نہ صرف اپنی معاشی سماجی ترقی کو آگے بڑھایا جا سکے بلکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں عالمی تعاون کو بھی بھرپور فروغ دیا جا سکے۔