کربلائے ایشیاء

بپا اک کربلا ہے
میدان ایشیاء میں

مقابل پھر یزیدی ہیں
حسینی قافلوں کے

وہی ہے داستان ظلم
جبر کی انتہاء ہے

مظلوم وادئ جنت
سراپا التجا ہیں

ہے پانی پھر رکا ہوا
اور لہو رواں ہے

مجاہد آج بھی ہیں بیبیاں
غازی آج بھی طفل و جواں ہیں

ہیں گرتے لاشے باپوں کے
کٹے سر ہیں بھائیوں کے

جو نور چشم تھے کبھی
وہ چشم بے نور ہیں آج

سسکتی وادیاں ہیں
تڑپتے پربت ہیں سب

جہاں مہکتے مشک و عنبر تھے
بارود پھیل رہا ہے

مثل کوثر تھے جو چشمے
لہو ان میں جمع ہے

جہاں چہچہاتے پرندے تھے
اب گولیوں کی صدا ہے

کتابوں کے شیدائی
وہ علم کے تمنائی

بھولے سب رستے
ا سکولوں مدرسوں کے

ہر مسکراہٹ ہر کھلکھلاہٹ میں
اب گریہ و زاری ہے

میری جنت کو دوزخ میں بدلتے
دشمنوں کا کھیل جاری ہے

مگر زمانے پر جیسے
سکوت جرم طاری ہے