حق دو کراچی کو

بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اوربلنگ کے بعد سردیاں اس شہر کراچی پر زحمت بن کر نازل ہوئی ہیں ایک تو ویسے ہی کڑاکے دار سردی پڑرہی ہے اوپر سےآئے روز گیس کا مسئلہ۔ اب صاحب خانہ لکڑی کا چولھا لے آئے۔ برتن تو ویسے ہی بہت کالے ہوگئے ہیں۔ رگڑ رگڑ کر ہاتھ الگ زخمی ہوگئے ہیں۔ سوچ رہی ہوں کہ کبھی آج تک لکڑی کا چولھا استعمال نہیں کیا۔ دنیا روز بروز ترقی کررہی ہے۔ نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ اور ہمارے شہر کو نا جانے کس کی بددعا کھاگئی۔ ترقی یافتہ شہر دن بدن پسماندہ ہوتا جارہاہے۔

کراچی جو روشنیوں کا شهر غریبوں کی ماں کا لقب پاتا تها۔ یہاں کی گلیاں، چوبارے اور چوراہے غریبوں کے لیے ہر وقت کهلے رہتے تهے۔ اس کی معیشت پر ملکی معیشت کا انحصار ہوا کرتا تها، مملکت خداداد کا میٹروپولیٹن شہر کا اعزاز ہونےکے ساتھ ساتھ

مختلف قومیتوں قبیلوں، ذات، برادری اور ملک بھر سے لوگ یہاں روزگار اور تعلیم حاصل کرنے آتے تهے۔

لیکن رفته رفته یہاں کی رونقوں کو دشمن کی نظر لگ گئی۔ غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے اعتنائی نے آہسته آہسته اس شہر کا امن ختم کردیا

وہی کراچی جو ملکی سیاست معیشت معاشرت صنعت وثقافت میں اپنا ثانی نا رکهتا تها اپنوں کی رقابتوں انتقام اور سازشوں کی نظر ہوگیا۔

قتل و غارت گری، چوری، دن دهاڑے قتل، بھته، ٹارگٹ کلنگ، عصمت فروشی، ڈکیتی، لوٹ مار، فتنه و فساد اور لسانی جھگڑے یہاں روز کا معمول بن گئے۔ عصبیت کی بھڑکائی ہوئی آگ اس قدر بڑهی کے کراچی سال کے بارہ مہینے اس آگ میں سلگتا جاتارہا۔ کبھی بھائی لوگوں کے بھتے پورے نہ ہونے پر مزدوروں سے بھری فیکٹری نذر آتش کردی جاتی ہے تو کبھی ٹیکسوں کی بہتات اور کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی سے شہر اندھیاروں میں گھرا نظر آتاہے۔ کبھی دن دہاڑے موبائل چھننے کے نام پر شہر کے معصوم نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے تو کہیں گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ کہیں گٹر ابل رہےہیں تو کہیں کچرا آسیب بن کر بیماریاں پھیلارہاہے۔

پہلے ہم کراچی کے باسی صرف کچھ اچھے وقت کے لئےہی باربی کیو کے لئے کوئلے اور لکڑی کے چولھوں پرکچھ چکن اور گوشت بھون لیتےتھے لیکن اب یہی مستقل ہمارا مقدر بنادیئے گئے ہیں۔

وہ پرویز مشرف جو پتھروں کے دور میں جانے سے ڈراتاتھا، آئے دیکھے اس کے لگائے ہوئے بیج آج تناور درخت بن کر کھڑے ہیں۔ یہاں آدمی اپنے سائے سے بھی ڈرتاہے۔ جس ملک کو تم نے آگ میں جھونکا وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتاجارہاہے۔ وہ پتھروں میں رہنے والے دوسری سپر پاور کو شکست دے کر ترقی کی دوڑ میں اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کو تیار کھڑے ہیں اور ہم اپنا جائز حق بھی اپنا خون بہا کر لےبرہے ہیں ایک میئر جو صاف کردار، امانتدار، اسلامی تعلیمات سے مزین اور حافظ قرآن ہے۔ اسے مئیر بنانے کے لئے دنیا بھر کی دو نمبریاں، چال بازیاں، مکاریاں، خون ریزیاں، اور فسادات کررہے ہو۔ کیا کراچی کے عوام کو بحرعرب میں ڈبونا چاہتےہو۔ آخر چاہتے کیا ہو تم لوگ۔ کراچی جیسا روشنیوں کا شہر تاریکی کے کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خدارا شہر کو اس کا جائز حق دے دو۔ اس شہر کے عوام پر رحم کرو۔ ہمیں پتھروں کےدور میں مت دھکیلو۔ پوارا پاکستان کراچی کے غموں پر رو رہاہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لو۔ اللہ سے ڈرو ، جب اللہ پکڑتاہے تو پھر کوئی بھی نہیں اس کی پکڑ سے بچا نہیں سکتا۔