اصلاح

دنیا کا سب سے آسان ترین کام تنقید کرنا بلا وجہ دوسروں کی خامیاں ڈھونڈنا اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا ہر کام کو تنقیدی نظر سے دیکھنا اور تنقید بھی تنقید برائے تنقید نہ کہ برائے اصلاح دوسروں کی تذلیل کرنا ۔ ان کا مزاق اڑانا اور مشکل کام اصلاح کرنا اور یہ مشکل ترین ہوجاتا ہے جب اصلاح خود کی کرنی ہو۔

اصلاح کے بہت سے طریقے ہیں سب سے کارآمد اپنی کی گئی غلطیوں کی فہرست بنانا ہے۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سب سے اہم ہے کہ دوسروں کی نظر سے اکثر ہماری غلطیاں چھپ جاتی ہیں یا مختلف وجوہات کی بناء پر وہ ہمیں ہم جیسے ہیں کی بنیاد پر نا چاہتے ہوئے بھی قبول کر لیتے ہیں ۔ لیکن اگر اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی کوئی بھی حرکت آپ کی نظر سے بچ نہیں سکتی میں اس فارمولے پر خود عمل کیا بہت فائدہ ہوا ۔ اس کے علاوہ اشفاق صاحب اور ڈیل کارنیگی جیسے بڑے نام بھی اس سے متفق ہیں اس کے علاوہ جب دوبارہ اپنی ہی بنائی ہوئی فہرست کو اصلاحی حوالے سے بار بار دیکھیں گے تو آپ کو خود احساس ہو گا کہ فلاں موقع پر معمولی سی بات پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیا تھا ۔ اور آئندہ اس طرح کی صورتحال میں آپ محتاط رہیں گے ۔ اس طرح آپ اپنی غلطیوں پر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی چھوڑ دیں گے۔

بات کرنے سے پہلے دس نہیں سو دفعہ سوچیں گے کہ اس سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہو گی؟ کیا یہ بات غیبت کے زمرے میں تو نہیں آتی؟ اسی اصول کے مطابق خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق جیسے عظیم المرتبہ صحابی کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ منہ میں کنکر رکھتے تھے کہ کوئی بے فائدہ گفتگو نہ ہو جائے۔ اسی کے پیش نظر صحابہ ہمیشہ خود احتسابی کے مرحلے سے گزارتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی امیر المومنین نے حضرت حذیفہ سے پوچھا کہ کیا میں منافق تو نہیں۔ آپ کی بارے میں ہے کہ عید کے دن بھی رو رہے ہیں پوچھا گیا حضرت آج تو عید کا دن ہے آپ کیوں رو رہے ہیں تو جواب تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے کہ عید تو ان کی ہے جن کی رمضان کی عبادات قبول ہوئی ہیں ۔ اماں حضرت عائشہ صدیقہ نے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ آپ کے تو کوئی گناہ بھی نہیں آپ نے فرمایا کہ کیا میں اپنے رب کا شکر گزار نہ بنوں۔ یہ ہمارے موضوع گفتگو کا نقطہ عروج ہے کہ اصلاح اور وہ بھی خود کی اگر اپنے ان اسلاف کے طرز کو اپنا لیں تو نہ صرف خود کی بلکہ اردگرد کے لوگوں کی بھی اصلاح کر سکتے ہیں۔

امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے اصلاح کا ایک عجیب و غریب طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ اگر ہم لوگ اس طریقے پر عمل کرلیں تو وہ اصلاح کے لئے نسخہ اکسیر ہے- اس سے بہتر کوئی نسخہ ملنا مشکل ہے، فرماتے ہیں کہ روزانہ چند کام کرلیا کرو، ایک یہ کہ جب تم صبح کو بیدار ہوئو تو اپنے نفس سے ایک معاہدہ کرلیا کرو کہ آج کے دن میں صبح سے لے کر رات کو سونے تک کوئی گناہ نہیں کروں گا، اور میرے ذمے جتنے فرائض و واجبات اور سنتیں ہیں، ان کو بجالاؤں گا اور جو میرے ذمے حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں، ان کو پورے طریقے سے ادا کروں گا، اگر غلطی سے اس معاہدہ کے خلاف کوئی عمل ہوا تو اے نفس! اس عمل پر تجھے سزا دوں گا، یہ معاہدہ ایک کام ہوا، جس کانام ’’مشارطہ‘‘ یعنی آپس میں شرط لگانا اس کے بعد پھر دعا کرنا کہ میرے مالک یہ معاہدہ میں تو گواہ رہنا اور میری مدد فرما پھر اپنے معمولات میں۔ مشغول ہو جاو۔ رات کو اپنے معاہدہ کے جائزہ لینا کہ کیا میں اپنے معاہدے پر پورا اترا ہوں اگر تو جواب ہاں ہے تو مالک کائنات کا شکر ادا کرنا چاہے کہ اس کی توفیق سے ایک دن اس کی اطاعت میں گزرا اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہے تو توبہ کرنی چاہے ان عوامل پر خور کرنا چاہے جن کی وجہ سے غفلت ہوئی تاکہ ان سے آئندہ اجتناب کیا جا سکے۔

اپنی بات کو البرٹ کے قول پر ختم کروں گا کہ بے وقوف چھوٹی چھوٹی باتوں پر برہم ہو جاتے ہیں جبکہ عقلمند لوگ ہمیشہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے سیکتے ہیں۔