ہمارا تعلیمی نظام (آخری قسط)

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔آخری قسط۔۔۔

پہلی قسط پڑھیں : ہمارا تعلیمی نظام

نہ کھیل نہ کود، صرف پڑھائی اور پڑھائی !!!

ہمارے ملک میں تعلیمی سال (اکیڈمک ائیر) کے اختتام پر بورڈ امتحانات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان امتحانات میں تسلی بخش نشانات نہ حاصل کرنے سے طلبہ کو ذہنی اذیت، پریشانی، تذلیل اور بے اعتمادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا معاشرہ، والدین اورتعلیمی ادارہ جات کھیل، فن کاری، دستکاری اورغیر نصابی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ نصابی مضامین(تعلیمی مضامین) کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ ارباب مجازاورتعلیمی اداروں کے ذمہ داران اکثر کھیل کود اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مختص پیریڈز کو بھی نصاب کی تکمیل بلکہ بعض مرتبہ تو معلنہ مدت سے قبل ہی نصاب کی تکمیل کے لیے انھیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں ازسر نو حقیقی درس واکتساب کی تعریف و تفہیم اور عمل سے آگہی حاصل کرنے ضرورت ہے۔اکتساب ایک تخلیقی عمل ہے۔ حقیقی اکتساب کے زیر اثر طلبہ تخلیقی و عملی نتائج کی روشنی میں اپنے معلومات کو بروئے کار لائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی تمام تر قوتوں کو موثر اکتساب(سیکھنے) پر لگائیں نہ کہ نمبر و درجوں(گریڈس) کی دوڑ میں اسے ضائع کریں۔ اس کام کو محکمہ تعلیم، تعلیمی اداروں اور والدین کوساتھ مل کر انجام دینا ہوگا۔

انفرادیت سے عاری نظام !!!

تعلیم کا مقصد افراد کو بامقصد زندگی کے لیے تیار کرنا اوران کے مطلوبہ اہداف تک رسائی کے لیے بااختیار بنانا ہے۔ ہر بچہ بڑا ہو کر ایک راکٹ سائنٹسٹ بننا نہیں چاہتا، ہو سکتا ہے کہ وہ بڑا ہوکرایک شاعر، گلوکار، کھلاڑی یا ایک مقرر( عوامی اسپیکر )بننا پسند کرے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم تمام طلبہ کو ایک جیسے مضامین پڑھاتے ہیں اور ان کی انفرادیت کو خاطر میں لائے بغیر ایک ہی طریقہ تعلیم سے سبھی کوگزارتے ہیں۔ یہ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ چند سال بعد پڑھائے گئے مضامین میں سے بیشتر مضامین طلبہ کے لیے اہم ثابت ہوتے ہیں نہ ہی سود مند۔ بے شک اس بات سے کسی کوانکار نہیں ہے کہ ہر مضمون کی بنیادی معلومات طلبہ کو فراہم کرنی چاہیے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ طلبہ کے تعلیمی زندگی کے دس(10)قیمتی سالوں تک انھیں ایسے مضامین پڑھائے جائیں جو مستقبل میں ان کے کسی کام نہ آئیں۔ طلبہ مستقبل میں کسی ایک مضمون، ایک پیشہ یا فیلڈ کو اختیار کریں گے تو پھر کیوں ان پر مختلف مضامین کو ایک طویل مدت تک مسلط کیاجاتا ہے۔ اس فرسودہ اور روایتی نصاب کو بڑی حد تک بدل نے کی ضرورت ہے۔

موثر و تخلیقی اکتساب !!!

ہمیں اکتساب کو تاثیر و تخلیق کا ایک حسین مرقع بنا نے کے لیے نصاب تعلیم پربھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ نصاب میں ضروری مضامین اور اس کی مقدار کی شمولیت کے معیار کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بے شک صدیوں سے ریاضی اور سائنسی علوم پر دسترس رکھنے کا ہمیں شرف حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف ریاضی اور سائنس تک ہی محدود کردیں۔ ہمیں دیگر سماجی اور ادبی علوم کو یکساں اہمیت دینا چاہیے۔ ریاضی اور سائنس کے باقاعدہ مضامین کے ساتھ تخلیقی مضامین کی شمولیت کے لیے نصاب کی تبدیل ایک نیک فال ثابت ہوگی۔ ان خطوط پر نصاب کی تدوین سے طلبہ میں اپنے تعلیمی دور کے ابتدائی ایام سے ہی اہم، بڑے اور گنجلک رجحانات و تصورات کو سمجھنے کی لیاقت پیدا ہوجائے گی۔ یہ قدم طلبہ میں پائیداردلچسپ، بامعنیٰ اکتساب اور حقیقی ترقی کی سلامتی کا ضامن ہوگا۔

طریقہ ہائے تدریس !!!

تعلیمی اصلاحات کے لیے صرف نصاب کی تبدیلی ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے اساتذہ اور تدریسی طریقوں میںبہت زیادہ تبدیلیوں کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تدریسی طریقے فرسودہ اور پرانے ہوچکے ہیں۔ ہم آج بھی بلیک بورڈ اور چاک کو ہی تعلیم کے واحد طریقے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اگرچیکہ طریقہ تعلیم میں ای لرننگ لہر سے کسی قدر تبدیلی ضروری آئی ہے لیکن اس کا تناسب بہت کم ہے۔ نہ صرف ہمارا طریقہ ہائے تدریس از کاررفتہ ہوچکے ہیں بلکہ ہمارے اساتذہ بھی قنوطیت کا شکار ہیں۔ اسکولوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو درس و تدریس کے نئے طریقوں سے آراستہ کریں۔ انھیں سرگرم ای ٹیچنگ ولرننگ سے لیس کرنے کے اقدامات کریں۔ ای لرننگ بلاشبہ ایک تخلیقی اکتسابی عمل ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے ایک قابل استاد انجام دے۔ اساتذہ کو درس وتدریس کے جدید اور موثر طریقوں سے لیس کرتے ہوئے ہم حیرت انگریز نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اسکولوں کو جدید آلات (Gadgets)سے آراستہ کردینا ہی کافی نہیں ہوگا۔ اساتذہ کو جدید تعلیمی ٹولز کے موثر استعمال کی تعلیم و تربیت بھی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ تالی بجانے کے لیے ہمیشہ دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔

افادی تعلیم(Functional Literacy)اور دنیا کے تقاضوں(Market Knowledge)کا صفرعلم !!!

ہمارے کسی بھی بورڈ کے تقریباً دودہائیوں پر مبنی نصاب کا جائزہ لیں تو ہم آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ ہمارے نصاب میں نہیں کے برابر تبدیلیا ں واقع ہوئی ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق، فعال وافادی تعلیم فراہم کرنے سے عاری ہے۔ اس کی آسان وضاحت یہ ہے کہ ہم کسی خاص علمی اصطلاح سے توواقف ہیں لیکن اسے عملی طور پر کیسے انجام دیاجائے اس سے ہم بالکل کورے ہیں۔ مختصراً عملی تدریس سے ہم اب بھی کوسوں دور ہیں۔ درجات کے مطابق تدریجاًنصاب کے اضافے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنے تعلیمی نظام سے فعال افادی تعلیم کو بالکل نکال پھینکا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نصاب کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے اور معیشت کس طرح سے چلتی ہے یا چلائی جاتی ہے۔فعال افادی تعلیم اور مارکیٹ کے تقاضوں کے بارے میں ہمارے نصاب میں معلومات صفر ہو گی۔طلبہ کو کم از کم ثانوی سطح سے مارکیٹ کی بنیادی تعلیم فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ دنیا کے مالیاتی کام کاج کو بہتر طریقے سے سیکھنے اور سمجھنے کے لائق بن سکیں۔

کرنے کے کام !!!

تعلیم سب کے لیے ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی نصاب میں افراد کی مجموعی ترقی کو لازماً جگہ دی جائے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم ایک ایسا تعلیم نظام کو وضع کریں جہاں گریڈنگ سسٹم کی شکل میں، محنت کی نمائش پر بچوں کو مجبور نہ کیا جائے۔ بچوں میں تجسس کو مہمیز کریں،ان سے سوالات پوچھیں، انھیں سوالات کرنے دیں اور انھیں ان کی دلچسپی اور پسند کے مطابق مضامین لینے کی آزادی دیں جن میں وہ اپنا کیرئیر اور مستقبل بنا نا چاہتے ہیں۔ درس و تدریس اور اکتسابی عمل(سیکھنے کے عمل میں)میں ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن یادرہے یہ کسی صورت استاد کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ آڈیو ویژول ایڈز، اسمارٹ بورڈز، آن لائن مواد اورانٹرنیٹ مربوط کلاس رومس نے درس و تدریس اور اکتساب کے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ طلبہ کے پاس پہلے سے زیادہ اب انٹر ایکٹوطریقوں سے سیکھنے کے ذرائع موجود ہیں۔ اب تصورات کو سمجھنا اور ذہن میں محفوظ رکھنا آسان ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ حکومت درس و تدریس اور اکتساب کے جدید طریقوں کواپنانے میں اپنا سرمایہ مشغول کریں۔ شعبہ تعلیم،درس وتدریس و اکتساب جیسے اہم موضوعات پر ریسرچ کروائے۔ بنیادی سطح پر موثر و افادی تعلیم کو نافذ کرنے کے لیے حکومت اساتذہ اور والدین کے مشوروںا ور اشتراک سے کام انجام دے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔