سیاست کے اُبلتے گٹر

قائد نے یہ پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ یہاں جمہوریت کے نام پر باری لگتی رہیں، یہ ملک اسلام کے نام پر بناتھا، لوگ اسلام کی سربلندی کے لیےکٹ مرے تھے، ایک خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کے زرین اصولوں پر اسلامی ریاست قائم ہوگی۔ مسلمانوں نے اسلام کے نفاد کے لیے قربانیاں دی تھی۔ لیکن ہم یہاں کلچر ڈے منارہے ہیں، صوبائی ثقافت کے گل بوٹے ٹانک رہے ہیں، ملک کے ایک حصے کو کاٹ کر پھینک دیا، لیکن اب بھی زراعت کے محکمے کے ذریعے جھاڑ جھنکار کی شجر کاری کر رہے ہیں۔

امریکہ کا دم بھرنے والے ذرا وہاں کی جمہوری روایات ہی کا پاس کرلیں، وہاں جو بھی صدر بنتا ہے، عوام کا مفاد سب سے پہلے دیکھتا ہے، اقتدار سے باہر آنے کے بعد بھی وہ عوام کی خدمت کرتے ہیں، صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ “میری خواہش تھی کہ میں وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی لوگوں کی خدمت کروں۔ انہیں ایسے موقعے فراہم کروں جن کے ذریعے وہ خوشیوں تک پہنچ سکیں۔ میں نے یہ سب کچھ اس لئے ضروری سمجھا کہ میرے ہم وطنوں نے مجھے زندگی میں ایک تاریخی مقام تک پہنچنے میں مدد دی تھی۔ ایک ایسا مقام جو ہر شخص کو نہیں ملتا۔ امریکہ کا صدر اور وہ بھی دو بار، بل کلنٹن نے یہ باتیں اپنی کتاب ’’دینا ‘‘ یا Giving۔ میں لکھی ہیں۔ کلنٹن کا کہنا ہے کہ سیاست ایک ایساکا م ہے جس کا انحصار عام طور پر صرف لینے پر ہے۔ سیاست دان لوگوں سے مدد لیتے ہیں، عطیات لیتے ہیں یا پھر ووٹ لیتے ہیں اور یہ عمل ایک بار نہیں بار بار دہرایا جا تا ہے۔ آپ خواہ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں ٗآپ لوگوں کو اتنا واپس نہیں کرتے جس قدر آپ ان سے وصول کر چکے ہو تے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ مجھے پرانا سارا حساب بے باق کرنا ہے۔ اس محبت کا قرض اتارنا ہے جو امریکی عوام نے مجھ سے کی۔ میں اپنے اہل خانہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں یہ سب کچھ کروں تاکہ میرے ہم وطن اور دنیا بھر کے لوگ ایک خوشگوار زندگی سے ہمکنار ہوں۔ یہ ساری باتیں کلنٹن نے اس کتاب کے تعارف میں کہی ہیں۔

دوسری جانب یہ غریب ملک ہے، جو سیلاب کی تباہ کاری سے لڑ رہا ہے، سندھ کا سب سے برا حال ہے، بہت سی زمینوں پر پانی اب تک کھڑا ہے، فصلیں ڈوبی ہوئی ہیں، راستے تباہ حال ہیں۔ عوام بے حال ہیں۔ سیلاب نے پورے ملک کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے گھری، اموات اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذراان تباہ کن اثرات کا ایک جائزہ تو لیں۔ 1500 سے زیادہ اموات، تقریباً 13,000 زخمی، 10 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا، تقریباً 800,000 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے، ایک ملین سے زائد مویشی ضائع ہو گئے، 9 ملین ایکڑ سے زائد فصلیں متاثر ہوئیں، اس آفت زدہ قدرتی واقعے کی جانی اور مالی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے صرف امداد کی آس میں رہے۔ سردیاں آگئی، خیمے بھی جو امداد میں آئے وہ اب تک متاثرین کو نہیں پہنچ سکے۔ ان کی خوراک، روزگار، مکان کی چھت کی فراہمی کو کسی کو خیال نہیں، لیکن اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے ارکان کی خرید و فروخت جاری ہے، عدالتیں بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی ہیں، عام آدمی انصاف کے لیے ترس رہا ہے، اس کا مقدمہ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کے لیے رات دن کسی بھی وقت عدالتیں کھلی ہوئی ہیں، ان کے مقدمات سننے جار ہے ہیں، ایک فیصلہ حمایت میں ہوتا ہے اور دوسرے سے اس کی نفی ہوجاتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستانی عوام کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں ؟

اسمبلیاں توڑنا، ارکان اسمبلی کو خریدنا بس یہی ایک کام رہ گیا ہے، یا دوسرا کام وہی ویڈیوز کا ہے، سیاست کے گٹر ابل رہے ہیں، ہر طرف تعفن پھیلا ہوا ہے، گندگی کا ڈھیر ہے اور اس گندگی کو پھیلانے کے لیے رات دن شوشل میڈیا پر کام جاری ہے۔ پاکستان ہرگز اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، یہ تو مسجد کی جگہ تھی، جیسے میخانہ بنادیا گیا ہے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔