اقلیتوں کیساتھ حُسن سلوک مگر ! انکے تہوار

دنیا گلوبل ویلج سے اب شاید گلوبل ہاؤس بن چکی ہے، مختلف مذاہب سے وابستہ افراد، سوشل میڈیا پر بالخصوص اور پریکٹیکل لائف میں بالعموم باہم دگر امن وسکون سے جینے کے سلیقے سیکھ رہے ہیں، جیو اور جینے دو کا سلوگن عام ہورہا ہے۔

ہمیں، بحیثیت مسلمان اپنے پیارے اللہ اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنا ہے کہ بدلتی قدروں کے اس دور میں ہم نے دوسری غیر مسلم اقوام کے ساتھ کیسے جینا ہے؟ جب میں اس سوال پر غور کرتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ ہمارے محبوب دین نے ہمیں جو کچھ بتایا ہے، ساری دنیا مل کر ابھی تک فکر ونظر اور اعلیٰ اخلاق کی اس معراج تک نہیں پہنچ سکی۔

ہمارا قرآن پاک کہتا ہے، کہ وہ غیر مسلم جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کی بنیاد پر جنگ نہیں کی، اور تمہیں گھروں سے نکالا نہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک اور مبنی بر انصاف طرز عمل سے اللہ تمہیں نہیں روکتا، اللہ تعالیٰ تو انصاف والوں سے محبت کرتا ہے. ( سورةالممتحنة، آیت نمبر 8)

اس لیے عام حالات میں یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ اور دیگر غیر مسلم اقوام میں سے صلح جو اور امن پسند افراد انسانی بنیادوں پر ہمارے حسن سلوک کے مستحق ہیں۔

ان میں سے بالخصوص وہ افراد جو کسی مسلم ریاست کے پرامن شہری ہوں، (ذِمّی) یا کسی مسلمان کے مہمان ہوں (مستامَن)، یا غیر مسلم ریاست جیسے، چین، امریکہ وغیرہ کے امن پسند شہری ہوں اور ہمارا ان کے ساتھ معاہدہ امن طے ہو(مُعَاہَد)،

ان سب کفار کا مال، جان، عزت قابل احترام ہے، اس قدر قابل احترام ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“جس نے بھی کسی عہد والے کافر کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، جبکہ اس کی خوشبو کی مہک چالیس سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔ صحیح بخاری، حدیث 3166.

سنو ! جس نے کسی معاہد (ایسا کافر جس کےساتھ امن کا معاہدہ ہو) ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے اپنے امتی کے خلاف کھڑا ہوں گا۔

سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 3052.

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً ریاست مدینہ میں کفار کے ساتھ بے مثال سماجی واخلاقی، تجارتی روابط قائم رکھے، ان کی دعوت قبول کی، تحائف بھی قبول کیے، ان کے بیماروں کی عیادت کی، ان کی میت کے لیے اظہار افسوس کے طور پر کھڑے تک ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمن کفار کے ساتھ بھی بے مثال اخلاق کا مظاہرہ کیا۔

آج سیرت کے اس پہلو کو سیکولر، لبرل، ملحدین، دین بیزار، دنیادار، اور ہر طبقہ بیان کرتا ہے۔

دوستو ! یہ ادھورا سچ ہے اور کتمان حق ہے، سیرت النبی صلی اللہ علیہ کا ایک دوسرا رخ جاننا اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کا ہمارے عقیدہ ونظریہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ دینی اصولوں پر استقامت، اپنے مذہب سے وابستگی، اور ایمان واسلام کے ساتھ وابستگی امت کو ایسی سکھائی کہ کہیں حسن اخلاق، اور رواداری کے نام پر ایک سچا مسلمان اپنے اصول برباد نہ کرے اور ایمان کے سودے نہ کرے۔

ان اصولوں کے لحاظ سے کفار کے خاص کلچر پر مبنی کسی بھی تہوار میں شرکت بلکہ ان کے ساتھ مشابہت کو بھی حرام قرار دیا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اس حرمت کے متعدد دلائل وجوہات میں سے ایک درجن کے قریب اسباب آپ کے سامنے پیش خدمت ہیں۔

عقلی طور پر بھی آپ ذرا سوچیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بین المذاہب رواداری کی بھی بہر حال کچھ حدود وقیود ہیں۔

کیا میں رواداری، بقائے باہمی اور برداشت کے خوب صورت نام پر ایک ہندو دوست سے مطالبہ کرسکتا ہوں کہ میں نے گاؤ ماتا ذبح کی ہے، اور اس کا گوشت مزے مزے کا پکایا ہے، میری دعوت قبول کرو ؟

کیا ایک انگریز دوست برداشت کے نام کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں مجھے شراب اور سور کے گوشت پر انوائٹ کرسکتا ہے؟

اگر کوئی مسلمان یا کافر ایسی حماقت کرے تو ہم اسے برداشت کی بجائے اشتعال انگیزی کہیں گے.

ہمارے نزدیک ابنیت مسیح کا عقیدہ اپنا کر اس کے جشن کی مبارکباد ہم سے چاہنا اس سے بھی بڑی حماقت ہے۔

جب مشرکین مکہ طاقت میں تھے اور مسلمان انتہائی کسمپرسی میں تھے، کفار نے اصولوں پر کچھ مُک مکا کرنا چاہا، تواللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دینی حوالے سے دو ٹوک پوری سورۃ الکافرون نازل فرمائی اور واضح کردیا کہ یہ ناممکن ہے۔ تمہارے لیے تمہارا طرز زندگی، میرے لیے میرا طرز حیات۔

کافر،چاہے حقیقی ماں ہی کیوں نہ ہوں اور اس سے حقیقی باپ کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو، قرآن مجید نے کہا ان سے حُسن سلوک تو رکھو لیکن ان کی بات میں آکر میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ (سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 8)

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی ماں تین دن احتجاجاً بھوکی، پیاسی اور سخت ناراض رہی، لیکن مجال ہے کہ اس سچے اُمتی نے سمجھوتا کیا ہو۔

کفار کے جداگانہ تشخص پر مبنی کسی بھی چیز میں ان سے مشابہت تک کو پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا اور دو ٹوک فرمایا، جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔ ابوداؤد 4031.

عیدیں اور تہوار کسی بھی قوم اور مذہب کا مخصوص ترین تشخص، ان کی ثقافت کے آئینہ دار اور ان کے عقائد ونظریات کے عکاس ہوتے ہیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کامل رواداری اور صاحب خلق عظیم ہونے کے باوجود کبھی بھی کسی کافر کے تہوار میں شرکت نہیں کی۔

بلکہ مدینہ منورہ میں کفار کے دو ثقافتی تہواروں کے بالمقابل دین اسلام کے دو عظیم تہوار اُمت کو دیے۔ عید الاضحٰی اور عید الفطر۔ابوداؤد 1134.

کسی صحابی، تابعی اور خیر القرون کے پورے عہد میں مدینہ منورہ سے قیصر وکسریٰ کے ایوانوں تک، ان عظیم لوگوں نے سفر کیے۔ مغلوبیت ومظلومیت کے عہد میں بھی اور فاتحانہ شان کے دور میں بھی، روم کے عیسائیوں سے بھی روابط تھے اور ایران کے مجوسیوں سے بھی، لیکن کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ ان لوگوں نے کبھی کسی تہوار میں شرکت کی ہو یا مبارک باد دی ہو، بلکہ اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تربیت یافتہ صحابہ کرام وتابعین عظام کفار کے تہواروں سے براءت اور کامل لاتعلقی کا اظہار کرتے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے والے مسلمان کے بارے میں کہتے وہ روز محشر انہی کفار کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس پر تمام اُمت کا اجماع لکھا ہے کہ کفار کے تہواروں میں شامل ہونا اور انہیں مبارکباد پیش کرنا حرام ہے. (أحکام أہل الذمۃ)

کسی کو زنا، قتل، چوری، ڈکیتی وغیرہ پر آپ مبارکباد دینا کیا پسند کریں گے؟  نہیں کریں گے نا؟!

اس لیے کہ جرائم پر مبارکباد نہیں دی جاتی، ہمارے دین کے مطابق عیسائیوں کے اعتقادات اور یوم میلاد عیسیٰ کی مناسبت سے ان کے گیت، اکثر شرک اور کفر پر مبنی ہوتے ہیں۔ شرک وکفر، حقوق اللہ کے لحاظ سے قتل اور زنا سے بھی بڑا جرم ہے۔  تو اس پر مبارکباد کیسی؟

قرآن مجید میں جھوٹ اور بہتان پر مبنی لغو محافل کے بارے میں اہل ایمان کا مثالی طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اہل ایمان فضول چیزوں سے اعراض اور کنارہ کشی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

اس لحاظ سے کرسمس جیسے کفریہ اور شرکیہ تہوار پر اگر آپ اللہ کے بندے ہیں تو خود فیصلہ کریں، جائز طرز عمل کیا بنتا ہے؟

قرآن مجید برائی کو روکنے کی بات کرتا ہے۔ اس لحاظ سے تو اسلامی حکومت اور مسلمان غیر مسلموں کے تہواروں کو محدود کرنے کے پابند ہیں، نہ کہ پروجیکشن کے۔

قرآن مجید کہتا ہے گناہوں کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو،

مبارکباد پیش کرنے سے ان کافرانہ تہواروں کو پروجیکشن ملتی اور یہ گناہ میں تعاون ہے۔ اس لیے بھی ناجائز ہے۔

مبارک باد دینا، دراصل کسی کام پر خوشی اور رضامندی کی علامت ہے، جبکہ کیا آپ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث اور ابنیت مسیح جیسے صریح کفر پر راضی ہیں؟

جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کفر پر راضی نہیں.

اجازت سے، جشن، پھر مبارکبادیں، پھر حکومتی مدد اور اب حکومتی نمائندوں اور بعض مذہبی شخصیات کی بھر پور شرکت اور بڑے بڑے فلیکسز، اس قدر حکومتی پروٹوکول چہ معنی دارد؟