مہنگائی نے بے بس کر دیا

آج مہنگائی نے بے بس کر دیا

مہمان آئے کہ درد سر ہوا

ان دنوں مہنگائی پاکستان میں ایک ایسا موضوع ہے جس کا ذکر ہر طبقے میں پایا جارہا ہے۔ کوئی امیر ہے یا فقیر، مزدور ہے یا سیٹھ، طالب علم ہے یا بزنس مین، کسان ہے یا تاجر، کونسا ایسا فرد ہے جو ملک میں مہنگائی سے متاثر نہیں۔ لوگوں کی آمدنی یا تنخواہیں محدود ہیں مگر مہنگائی بے قابو جن کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے اور بیچاری عوام کی گردن دبوچ کر حالت یہ کر دی ہے کہ جیتے بنے نہ مرتے بنے۔

یہ بازاروں میں مہنگائی کا عالم

سبی چہرے اترتے لگ رہے ہیں

وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی عروج کو چھو رہی ہے۔ اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب تو کیا اب درمیانی طبقہ کو بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی چینی بحران اور آٹا بحران پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور کبھی بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا جارہا ہے اور یہ نرخ صرف بجٹ پیش کرنے کے موقع پرہی نہیں بڑھائے جاتے بلکہ ہر دوسرے دن عوام کے سروں پر نرخنامہ میں اضافے کا ڈنڈا مار دیا جاتا ہے جس کی کاری ضربوں سے عوام چکرا کر رہ گئی ہے۔اب تو مسلسل مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ آٹا، روٹی، نان کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے جو کہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی طرح دالیں، گھی، چینی، بیکری، ڈیری، بلکہ تمام مصنوعات میں سے کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ غریب تو غریب اب تو درمیانے طبقے کے لیے بھی زمین خرید کر گھر بنانا خواب ہو گیا۔ بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ رات سونے سے قبل کسی چیز کا نرخ معلوم کریں وہ تین سو روپے ہوگا اور صبح اٹھ کر وہ چیز خریدیں تو وہ 350 روپے میں ملے گی کہ چند گھنٹوں میں اس کا نرخ پچاس روپے بڑھ چکا ہوگا۔ جہاں مہنگائی بڑھ رہی ہے وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ نظر آرہا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بے ہنر پڑھے لکھے افراد پیدا کر رہا ہے۔ جب وہ اپنا تعلیمی سفر مکمل کرتے ہیں تو سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں ہیں۔ کام کرنے کا کوئی ہنر ان کے پاس نہیں ہوتا تو ایسے حالات میں ان بیچاروں پر یہی جملہ فٹ ہوتا ہے۔” نہ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے” اب جس معاشرے میں بے روزگاری اور مہنگائی ہوگی۔ پیٹ کی فکر کے لالے پڑے ہوں گے۔ وہاں امن کیسے رہ سکتا ہے؟

اگر ہم اپنے نظریہ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے وطن عزیز کو مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ملک کی مشینری کو درستگی کی طرف لانا ہوگا۔ اس کا احتساب سر سے شروع کر کے پاؤں تک کرنا ہوگا۔ مگر کیا کریں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ اس بگڑے آوے میں بھی اللہ کے کچھ ایسے سپاہی ضرور موجود ہوں گے جن کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے۔” نگاہیں مرد مومن سے بدل جاتیں ہیں تقدیریں۔”

سب سے پہلے تو محتسب اداروں نیب اور عدلیہ کو اپنے ہی احتساب کی ضرورت ہے۔ جج قرن اولی کے قاضیوں کے اصولوں پر چلتے ہوئے حاکم وقت کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں تاکہ غریب اپنے لئے انصاف کو غیر مرئی چیز نہ سمجھیں۔

مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ان کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کو اپنے انتظامی فیصلوں میں بہتری پیدا کرنی ہوگی۔ کرپشن پاکستان کے ہر ادارے میں کسی نہ کسی صورت پیوست ہو چکی ہے، ان میں کرپشن ختم کرنا ہوگی۔ ملکی روپیہ کو غیر ملکی کرنسی کی باندی نہ بنایا جائے۔ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔

میرا ایمان ہے کہ اس ملک میں معاشی بگاڑ کی اصل اور سب سے بڑی وجہ سودی نظام کا اپنانا ہے۔ چاہے وہ ہمارے حکومتی کارندے کسی بھی طریقے سے اپنائیں یا پھر وہ عالمی بینک سے سود پر قرض ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ کر کے تو ہم خود تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ اللہ کرے ہماری حکومتی مشینری میں ایسے لوگ آئیں جو پاکستان کو سود کی لعنت سے نجات دلائیں۔ حکومت کو محصولات یعنی ٹیکسوں کی طرف بھی دھیان دینا ہوگا کیونکہ محصولات ادا کرنے والی کمپنیاں ان محصولات کا بوجھ اپنی جیبوں کی بجائے عوام پر ڈال دیتی ہیں۔

ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ بھی اشیاء کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان غیر اسلامی کاروباری اور تجارتی و صنعتی طریقے سے بھی ملک بے برکتی کا شکار ہے۔اس سے تعلیم یافتہ معاشرتی ماحول بھی لالچی رویوں کا حامل ہو رہا ہے۔ حکومت کو ملک میں معاشی استحکام کے لیے یہ ناسور بھی ختم کرنا ہوں گے۔

بے روزگاری کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے جب معیشت مضبوط ہوگی۔ انڈسٹریز لگیں گی۔ سرمایہ داری ہوگی۔ حکومت عوام کو نئے مواقع فراہم کرے گی۔ اس کے نتیجے میں امن و امان ہو گا مہنگائی ختم ہوگی کیونکہ مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، ایک ہی پلو میں بندھی تین بہنیں ہیں اور ان کی ایک دوسری کے ساتھ موجودگی لازم و ملزوم ہے۔ اس سب کے لئے معاشرے کے سب طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے لے کر ایک عام فرد تک، سرمایہ کار و صعنتکار سے لے کر مزدور تک کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔