محتاجی سے بچ کے‎‎

محتاجی ایسی عجیب کیفیت ہے جس میں مبتلاء ہونا انسان کی عزت نفس اور خودداری کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ عموما لوگ محتاجی سے پناہ مانگتے ہیں مگر محتاجی کا سطحی سا فہم رکھتے ہوئے۔ حالانکہ، محتاجی صرف چارپائی پر پڑ جانا اور جسمانی طور پر دوسروں کے رحم وکرم پر ہو جانے کا نام نہیں۔ بلکہ خودداری کا احساس جس طریقے، عمل، قول سے بھی متاثر ہو اور ہم اکثر وبیشتر لوگوں سے سوال کرنے لگیں، اپنی ضروریات کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو جائیں، روزمرہ کی اشیاء خریدنے کی سکت ہونے کے باوجود مفت خوری کی لت میں مبتلاء ہونے کی وجہ سے دست سوال دراز کیے رکھیں،غرض ہماری حاجتیں ہمیں ذلت آمیز رویے اختیار کرنے پر مجبور کر دیں تو یہی محتاجی ہے اور جونہی اس کا احساس ہو جائے،اپنی عادات ومعاملات کو نیا رخ دینے کی شعوری کوشش شروع کر دینی چاہیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے نفس کو ذلت میں ڈالے۔” (ترمذی)

یاد رہے لوگوں سے سوال کرنا اتنا ذلت آمیز رویہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے محض ٹاٹ اور پیالے جتنا سامان زندگی رکھنے والے کو بھی کسب حلال کی ترغیب دی۔ فرمایا:”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔”(بخاری)

آپ نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری)

اصحاب رسول ﷺ کا تزکیہ آپ ﷺ نے خود کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کی خودداری کا عالم اس روایت سے عیاں ہوتا ہے:”جو مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں”.آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی : میں ضمانت دیتاہوں۔ نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرنا۔ (اس کے بعدآپ رضی اللہ عنہ کسی سےکچھ نہ مانگا کرتے تھے حتی کہ) آپ گھوڑے پر سوار ہوتے اور کَوڑا(یعنی چابک)نیچے گر جاتا تو کسی سے اٹھانے کے لئے نہ کہتے بلکہ گھوڑے سے نیچے اتر کر خود ہی اسےاٹھالیتے۔ (ابن ماجہ)

روزمرہ کے امور کی انجام دہی میں حتیٰ الامکان اپنا کام خود کرنا اور احسان نہ لینا آپ کو لوگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ جوتی کا تسمہ بھی لوگ دے سکتے ہوتے تو اللہ اس کی تمثیل آپ ﷺ کی زبان سے نہ دلواتا کہ اس شے کے لئے بھی مجھ سے مانگو۔ انسان تو یوں بھی کم ظرف ہے، دوسرے کی ایک ضرورت پوری کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپسرا محسوس کرنے لگتا ہے جبکہ اللہ ہمہ وقت اس انتظار میں ہوتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں۔

آپ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء مانگ کر استعمال کرنے کی عادت بد کا شکار ہیں، بیمار ہیں،صاحب اولاد نہیں ہیں، بڑھاپے کے دور سے گزر رہے ہیں، صحتمند ہیں لیکن کاروبار کے لئے پریشان ہیں،رشتوں کی بابت پریشان ہیں تو انسانوں کے آگے دست سوال دراز کرنے سے بچئے خواہ وہ بااثر لوگ ہوں یا گدی نشین، کیونکہ وہ بھی انسان ہیں اور کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں سوائے اللہ کے اذن کے اور ہر کوئی اللہ کا ولی بن کر احتیاج پوریی کروانے کی طاقت رکھتا ہے۔ لوگوں کو حاجت روا سمجھنے سے مراد یہی نہیں کہ رو رو کر ان سے مانگا جائے بلکہ یہ سمجھنا بھی کہ فلاں بہت رسائی رکھتا ہے وہ میرا مسئلہ حل کروانے پر قادر ہے اور عملاً لوگوں کی محتاجی آپ کو حقیر بنا دیتی ہے۔آپ صہ نے یوں بھی دعا فرمائی ہے:

“اے اللہ پاک! میں تجھ سے ہدایت ، پرہیزگاری ، پاکدامنی اور غِنیٰ(یعنی لوگوں سے بےنیاز رہنے) کاسوال کرتا ہوں۔” (مسلم)