بدلتا وقت

ایک شخص جو خود ایک اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھا، اس کے تین بیٹے تھے ، تینوں سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے اور شاہانہ زندگی کے ساتھ وقت تیزی سے گزرا اور پھر اس کے نام کے ساتھ (ریٹائرڈ ) لگ گیا،عہدے کی مدت ختم ہوئی، ریٹائرڈ ہو گئے اور اب زندگی کا سفر انتہاء کی طرف چل پڑا۔ بیٹوں نے باپ کے عہدے سے خوب لطف اٹھایا کہتے تھے ہمیں کیا فکر ہے، ہمارا باپ 22 گریڈ کا افسر ہے، ہمارے کام خود بخود بنیں گے اور بنتے بھی رہے۔ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ قدموں میں حاضر ہو جاتا تھا۔ ‏پھر وہ دن آ گیا جب بیٹے یہ بھول گئے کہ یہ وہی باپ ہے جس کے نام و عہدے کی وجہ سے لوگ ہمیں سر سر کہتے تھے۔

باپ کسی بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے اور بولنے سے معذور ہو گیا، بیٹے کہنے لگے اب تو باپ کی کمزوری دیکھی نہیں جاتی، ایک بیٹے نے کہا کہ ابا کی جائیداد و مال کی تقسیم ‏کرتے ہیں نہ جانے کب مر جائے، اب تو شرم آتی ہے بتاتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گےجب دوست آتے ہیں تو سامنے یہ بوڑھا پڑا ہوتا ہے، چلو ایک نوکر مستقل ان کے ساتھ رہنے کے لیے رکھ لیتے ہیں جو ان کا خیال رکھے. بیس ہزار ماہانہ دے دیں گے۔ نوکر آ گیا اور گھر کے ایک کمرے میں باپ کو فرش پر گدا لگا کرڈال دیا گیا، نوکر کو کہا کہ اسکا پورا خیال رکھنا ہمیں کوئی شکایت نہ ملے۔

بیٹوں کی شادیاں ہوئیں،ایک نے گرمی کی چھٹیاں گزارنے فرانس کا پروگرام بنایا اور دوسرے نے لندن اور تیسرے نے پیرس کا۔ ‏اور ہر جگہ اپنا تعارف 22 گریڈ کے افسر کے بیٹے ہونے سے شروع کرتے، نوکر کو تاکید کی کہ ہماری 3 ماہ بعد واپسی ہوگی، تم بابا کا پورا خیال رکھنا اور وقت پر کھانا دینا۔جی اچھا صاحب جی!۔

سب چلے گئے وہ باپ اکیلا گھر کے کمرے میں لیٹا سانس لیتا رہا نہ چل سکتا تھا نہ خود سے کچھ مانگ سکتا، ‏نوکر گھر کو تالا لگا کر بازار سے بریڈ لینے گیا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا لوگوں نے اسے ہاسپٹل پہنچایا اور وہ ہوش میں نہ آ سکا۔ بیٹوں نے نوکر کو صرف باپ کے کمرے کی چابی دے کر باقی سارے گھر کو تالے لگا دیئے تھے، ملازم اس کمرے کو تالا لگا کر چابی ساتھ لے ‏کر گیا تھا کہ ابھی واپس آجاؤں گا اب بوڑھا ریٹائرڈ سرکاری افسر کمرے میں لاک ہو چکا تھا اور وہ چل پھر نہیں سکتا تھا، کسی کو آواز نہیں دے سکتا تھا۔ تین ماہ بعد جب بیٹے واپس آئے اور تالا توڑ کر کمرہ کھولا گیا،تو لاش کی حالت وہ ہو چکی تھی کہ ڈھانچہ تھی جو دیکھنے کے نہ قابل تھی۔ ‏حضرتِ انسان کے یہ واقعہ سبق  اورعبرت کا مقام ہے۔

ہم کس طرح اپنی اولاد کے لئے حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر ان کا مستقبل سنوارنے کے لئےتن من دھن کھپاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دولت جائیدادیں بنا کر ان کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ اولاد کل بڑھاپے میں ‏میری خدمت کرے گی، اعلیٰ ترین غیر ملکی اسکولوں میں دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں اور دین اسلام کی تعلیم دلوانے کو توہین سمجھتے ہیں جس میں سکھایا جاتا ہے کہ والدین کی خدمت میں عظمت ہے، ہر انسان جو بوتا ہے اسی کا ہی پھل پاتا ہے. ‏ہمیں بھی سوچنے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کو کیا تعلیم دلوا رہے ہیں، کہیں ہمارا حال بھی ایسا تو نہیں ہونے والا، سوچئے ! اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ آمین