آؤ دوڑ لگائیں

بچپن کی باتوں کو یاد کرنا کتنا اچھا لگتا ہے اور جب سب مل کر بچپن کی باتوں کو یاد کرتے ہیں تو خوشی کے ساتھ حسرت کا بھی ایک احساس ہوتا ہے کہ یہ وقت گزر گیا اور ہم بڑے ہوگئے۔

آئیں آج سوچتے ہیں کہ بچپن کی اس معصومانہ زندگی میں واپس جانا چاہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ کتنی ہی ڈانٹ پڑتی تھی پھر بھی خوشی تھی سکون تھا۔ نا جانے کیوں بےعزتی کا غم لیے بیٹھے نہیں رہتے تھے۔ دل اس لیے ہی تو صاف تھے۔ لڑ لڑ کر پھر مل کر کھیلتے تھے۔ لوگوں کی باتیں دل و دماغ پہ چھا نہیں جاتی تھیں۔ صبح سے شام تک نصابی اور صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ دماغ تروتازہ رہتا اور اتنا وقت ہی نہ ملتا کہ کسی کی باتوں پہ سوچا جائے کہ کس نے کیا کیوں اور کیسے کہا۔ ہم بڑے ہوگئے تو ہم بہت باشعور ہوگئے۔ ہماری یاداشت بہت اچھی ہوگئی۔ اب ہم کیسے بھول جائیں کہ کس نے ہمارے ساتھ کتنا برا کیا تھا۔ بچے جن بھوتوں سے ڈرتے ہیں اور بڑے ہو کر انسان انسان سے ڈرتا ہے۔ بچپن میں دوست بناتے تھے۔ آج دن بھر کتنے ہی انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے لیکن دوست کوئی نہیں۔ بچپن میں مل کر ڈھیروں باتیں کرتے تھے۔ کوئی بات ہضم کہاں ہوتی تھی۔ ایک دوسرے سے باتیں کہتے اور ہنستے تھے۔ اب ہم سمجھ دار ہوگئے ہیں ہمیں باتیں چھپانا آگیا ہے۔ پہلے رشتہ دار تھے ملتے جلتے تھے بےتکلفی تھی اب رشتہ داریاں نبھانے کے چکر ہیں۔

میرے دوستو آؤ! آج ہم مل کر بچپن کی طرف سفر کرتے ہیں۔ ہم اپنے دل کو صاف کرتے ہیں۔ زمانے نے اس دل کو سخت بنادیا ہے۔ ہم دل کی اس زمیں کو نرم کرتے ہیں۔ یہ ہم ہیں اور ہمارا معصوم بچپن ہے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں ان لوگوں کی جو بہت سمجھ دار ہیں اور اپنی خوبصورت گفتگو میں طنز کے تیر چلاتے ہیں۔ دل کو نرم رہنے دیجئے۔ لوگوں کو معاف کردیں۔ بھول جائیں کس نے کیا کہا۔ یہ جو ہم فخر سے کہتے ہیں “اتنے سال ہوگئے مجھے یاد ہے کیا کیا تھا میرے ساتھ” ،”اتنے سال ہوگئے بات نہیں کی زندگی بھر اس سے بات نہیں کروں گی۔” ان سوچوں کو دماغ سے نکال دیں۔ گھر میں اگر اتنا کوڑاکرکٹ جمع کر لیا جائے تو کیا ہوگا گھر تو اپنا خراب ہوگا۔ دل و دماغ کو بھی ترو تازگی چاہیے اس کو صاف کریں۔ جو یادیں تکلیف دیں ان کو بھول جانا بہتر ہے۔ جو لوگ تکلیف دیں ان کو معاف کرنا بہتر ہے۔ “رحمان کے (اصل) بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پہ نرم چال چلتے ہیں۔ “( الفرقان۔۶۳) رحمان کے بندے بن جائیں۔ ایک دوسرے کے لیے نفرت دل میں رکھ کر ، غیبت کرکے اس کو سخت نہ بنائیں۔

بچپن کی خواہشات بہت معصوم تھیں۔ مل کر سوچتے تھے کہ جنت میں ہمارا گھر کیسا ہوگا۔ کوئی چاکلیٹ کا، کوئی آم کا، کوئی آئسکریم کا گھر اپنے تصور میں بناتا پھر ایک دوسرے سے کہتے تم مجھ سے کھڑکی سے آکر یہ لے لینا۔ ہم ان معصوم خواہشات کے ساتھ جنت کا تصور تو کرتے تھے۔ ہم بڑے ہوگئے تو ہماری خواہشات بڑھ گئیں اور ہم نے جنت کا تصور کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اب کوئی سوچتا ہے کہ وہ جنت میں جاکر ڈاکٹر بنے گا۔ ہر پیپر میں ٹاپ کرے گا یا جنت میں اس کا بینک بیلنس اتنا ہوگا۔ میرے خیال سے بچپن کی خواہشات ذیادہ معصوم تھیں اور اچھی بھی اور جب جنت کا سوچتے تھے تو اس کو حاصل کرنے کی تڑپ بھی پیدا ہوتی تھی۔

ہم خود کو بڑا تصور کر کے کھیلنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم دن کا کچھ وقت پرسکون ماحول میں فطرت کے قریب گزاریں تو کتنا اچھا ہو۔ چلتے پھرتے جو موبائل ہاتھ میں اور طویل مصروفیات کا ٹائم ٹیبل ذہن میں ہوتا ہے اس کو چھوڑ کر کچھ وقت دیگر مثبت سرگرمیوں میں لگائیں۔ ملکی، سیاسی، معاشرتی مسائل کے علاوہ کبھی آپ بچوں کے رسائل ، بچپن میں جو کہانیاں آپ پڑھتے تھے ان کو پڑھیں تو یہ بھی ایک دلچسپ سرگرمی ہوگی۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ موجودہ حالات سے بھاگ رہے ہیں یا آنکھیں بند کرلیں مطلوب یہ ہے کہ بچپن میں سوچتے تھے نت نئے خیالات ذہن میں آتے تھے تو اب بھی اپنے ذہن کو وسعت دیں۔ ایک محدود دائرے میں رہ کر خیالات کو قید نہ کرلیں۔

میرے دوست مہذب بلا کے ہیں۔ وہ اس عمر میں میرے ساتھ کھیل کود میں دوڑ کے مقابلہ نہیں لگائیں گے چیل اڑی، کوا اڑا شاید کھیل لیں۔ ہم بڑے ضرور ہوگئے ہیں لیکن ہر عادت بدلنا ضروری تھوڑی ہوتا ہے۔ پہلے ہم دوڑ لگایا کرتے تھے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہوتی تھی۔ آؤ آج بھی ہم دوڑ لگاتے ہیں۔ سب کو بھاگنا ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ہم بڑے ہوگئے ہیں تو ہمارے دل ذیادہ نرم ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں ایک دوسرے کو ہرانے کی فکر نہیں ہے بلکہ ہم سب نے جیتنا ہے۔ آؤ مل کر جنت کی طرف دوڑتے ہیں۔

“اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑو جس کا عرش آسمان و زمین کے برابر ہے اور جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔” ( آل عمران۔ ۱۳۳)