فکر نسلِ نو

4 دسمبر کا دن شہر کراچی ميں دو الگ الگ رنگوں کے ساتھ طلوع ہوا۔

سندھ بھر ميں اور بالخصوص شہر قائد ميں 4 دسمبر کا دن سندھ کلچر ڈے کے طور پر منايا گيا، شہر کی سڑکيں، چوراہے، بازار اور پارک سب ہى جگہ اجرک کےخوبصورت رنگ بھى نظر آئے اور سندھ کا کلچرل رقص کرتے گروپس بھی، فضائيں ہو جمالو اور جيے سندھ جيے کی موسيقی سے گونجتی رہیں

ان شور شرابوں کی وجہ سے ٹريفک کے بے شمار مسائل بھى پيدا ہوئے، کراچی کلفٹن اور سی وی یو کا سارا علاقہ گھنٹوں بند رہا، مگر سڑکوں پہ کلچر ڈے منانے والے اجرکى سلفياں اور رقص پر مبنى وڈيوز بنانے ميں ہى مگن رہے،

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ صوبہ سندھ اس کلچر ڈے سے پہلے بھى مسائل کے بھنور ميں پھنسا ہوا تھا اور کلچر ڈے کے بعد بھى جہالت کے اندھيروں ميں ڈوبا ہوا ہے،

کلچر ڈے پر نہ تو اپنے صوبے کى ترقى و خوشحالى کے ليے عہدو پيمان باندھے گئے ہيں اور نہ ہی مسائل کے حل کے طور پر تعليم کو اشد ضرورى قرار دیا گيا ہے،

نہ ہی سرکارى طور پر کوئى تعليمى پاليسى مرتب کى گئى ہے، نہ ہی آئندہ کا کوئی ایک بھى ترقياتى منصوبہ سوچا گيا ہے، سندھ کے کسى ايک مسئلے پر بھی بات نہيں کی گئى، بیروزگاری کے مسائل بھى جوں کے توں ہى ہيں ،

بس عوام نے سڑکوں پر ہلہ گلہ کيا اور ٹريفک کا نظام درہم برہم کردیا، جس کے نتیجے ميں کئى ٹریفک حادثات بھی ہوئے، ہاں مگر اس طريقے سے کلچر ڈے منا کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت ضرور ديا گيا ہے۔

کاش اس ” کلچر ڈے ” پر کچھ حقوق و فرائض کا شعور بھی بیدار ہو جاتا، غلامانہ ذہنیت سے رہائی کی کوئی سوچ بھى پیدا ہو جاتی کہ ہماری آنے والی نسلوں کو اسى کى تو اشد ضرورت ہے،

دوسرى جانب الخدمت فاؤنڈيشن جماعت اسلامى کى جانب سے” بنو قابل ” کے دوسرے مرحلے ميں ميٹرک اورانٹر پاس لڑکیوں کا اپٹيٹيوڈ ٹيسٹ ليا گيا، جس ميں ہزاروں کى تعداد ميں شرکت کى گئى، شہر قائد نے 4 دسمبر کو ہى باغ جناح ميں باپردہ خواتين کا ايک جم غفير ديکھا جو روشن مستقبل کے ہزاروں خواب آنکھوں ميں سجائے آگے بڑھنے کى لگن ليے ہوئے تھا، جو با پردہ رہتے ہوئے بھى ہر محاذ پر حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کو تيار کھڑا تھا،

الخدمت فاؤنڈيشن جماعت اسلامى کا شکريہ کہ جس نے ” بنو قابل ” کے نام سے نوجوانوں کے ليے اميد کى لو جلا دى ہے، آگے بڑھنے کے راستہ دکھا ديا ہے، جينے کى امنگ بھى دى ہے اور زندگى کا مقصد بھى۔