پى ٹى وی کا سنہرا دور

بہت ہى خوشگوار ياديں وابستہ ہيں ان دنوں سے جب اہل خانہ مل بيٹھ کر پی ٹی وى پہ ڈرامے ديکھا کرتے تھے، بہت بھلا معلوم ہوتا تھا یوں سب گھر والوں کا اکٹھے بيٹھ کر ٹى وى ڈرامے ديکھنا، نجانے ان دنوں مل بیٹھنا بھلا لگتا تھا یا ٹی وی ڈرامے، بہر حال سارے دن کے بعد رات گھنٹہ دو گھنٹہ ٹی وی دیکھنا ایک مکمل تفریح کا سامان ہوتا تھا۔

پى ٹى وى کى نشريات چوبيس گھنٹے کہاں چلتى تھيں، سہ پہر چار بجے تلاوت قرآن پاک سے نشريات کا آغاز ہوتا تھا، اس کے بعد قارى صداقت بچوں کو قرآن پاک کى تجويد اور عربى گرامر کى تعليم ديتے تھے، ايک گھنٹہ بچوں کى نشريات کے ليے وقف ہوتا تھا جس ميں اصلاحى اور سبق آموز کہانياں پيش کى جاتى تھيں۔

نوجوانوں کے ليے بھی ایک دو گھنٹے مختص ہوتے تھے، اسٹيج شوز ميں انکے تعليمى مسائل پر بات چيت ہوتى تھى اور کبھی کوئى ڈاکٹر، انجينئر، ٹيچر يا پھر کوئى اور مشہور و معروف شحصيت اپنے تجربے کی روشنى ميں نوجوانوں کو انکے بہتر مستقبل کے حوالے سے رہنمائى فراہم کرتى تھى۔

ڈرامہ دن ميں صرف ایک گھنٹے کا ہى پيش کيا جاتا تھا، ڈراموں ميں پاکستان کے ہر صوبے کو برابر نمائندگى دى جاتى تھى تاکہ وہ اپنى ثقافت و کلچر اور اپنے صوبے کے مسائل کو ڈرامے کے شکل ميں پيش کرسکيں، يوں ہر روز کسی ایک صوبے کى سير ہو جاتى تھى، ايک دن پشاور سنٹر کا ڈرامہ ديکھ کر، تو دوسرے دن کوئٹہ سنٹر کا، پھر کراچى، اگلے دن لاہور، پھر اسلام آباد اور کشمير کو تو کبھى بھولتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

حالات حاضرہ سے آگاہى بھى دى جاتى تھى مگر ايٹم بم کى طرز پر نہيں کہ اوسان ہى خطا کر ديے جائيں بلکہ شام سات بجے چيدہ چيدہ خبريں اور رات 9 بجے تفصيل کے ساتھ آدھے گھنٹے کا “خبرنامہ”پيش کيا جاتا تھا، حالات حاضرہ پر سرکارى نمائندوں اور مبصرين کى آراء تھى دى جاتى تھى، ان کى کارکردگى پر سوال جواب بھى کيے جاتے تھے مگر شائستگى کے ساتھ آج کى طرح گفت و شنيد کے نام پر مچھلى منڈياں نہيں لگتیں تھيں، رات گيارہ بجے “فرمان الہى” اور قومى ترانے کے ساتھ ہی نشريات کا اختتام ہو جاتا تھا۔

دن بھر ٹى وى بند رہتا تھا، صبح سويرے دو گھنٹے کى نشريات کا آغاز بعد ميں شروع ہوا، اس دور کے ڈرامے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب کرتے تھے،چاروں جانب بکھرے مسائل پر مبنى ڈرامے معاشرے کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کرتے تھے، آج کے برعکس اس دور کا میڈیا اور معاشرہ دونوں ایک دوسرے کا عکس تھے۔ ڈرامہ سازى ميں اصلاح کے ساتھ ساتھ دينى اقدار و روایات کا پاس بھی رکھا جاتا تھا يہى وجہ ہے کہ اس دور کے ڈراموں نے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔