اور بھی دکھ ہیں زمانے میں!

شاپنگ مال ميں داخل ہوتے ہی جو چيز بکثرت نظر آئی وہ، نوجوان خوبصورت فيميل ماڈلز کے قد آدم پوسٹرز اور تصاوير تھيں، عورت ہونے کے ناتے اس رنگینی و دلفریبی سے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن اس چيز نے مجھے خوش ہونے کی بجائے رنجيدہ کر ديا۔

کيا عورت کی خوب صورتی کو استعمال کيے بغير کوئی کاروبار کوئى تجارت نہيں کی جاسکتى؟ کاروبار کو چمکانے کے لئے عورت کا کندھا استعمال کرنا کيوں ضرورى ہے؟ کیا ترقی کرنے اور آگے سے آگے بڑھتے رہنے کے ليے اپنے اندر دیانت داری جیسے اخلاقی اوصاف کا ہونا ضرورى نہيں؟ کيا اللہ پر بھروسہ اور توکل کافی نہیں؟ کیا عورتوں کی رعنائیاں دکھائے بغیر منزليں آسان نہيں ہو سکتیں، اگر ہاں تو پھر سڑکوں اور چوراہوں پر، شاپنگ سنٹرز کے اندر اور باہر، سیلونز اور بیوٹی پارلرز کے در و دیوار پر، ميگزينز کے سرورق پر اور ميڈيا کے ہر ہر اشتہار ميں عورت کا حسن اور خو بصورتی کيش کيوں کروائی جاتی ہے، جگہ جگہ دعوت نظارہ دیتے ان پوسٹرز کو ديکھ کر تکليف کے ساتھ حيرانی بھى ہوتی ہے کہ ہمارى سوچوں کے دائرے اتنے ہی محدود ہيں کہ جنس سےآگے ہی نہيں بڑھ رہے، اور اس کو آگے بڑھنے بھی نہیں دیا جا رہا،

عورت کو محض شوپیس بنا کر رکھ دینے اور عورت و مرد کے تعلق کو ڈسکس کرنے کے علاوہ شاید ہمارے پاس کرنے کو کچھ اور ہے ہی نہیں، متنازعہ ٹرانس جینڈر بل اس کی کھلی مثال ہے، مملکت خداداد “پاکستان” میں عوام کے بنیادی مسائل ایک طرف، پاکستان کی سالمیت کو در پیش بیرونی خطرات ایک طرف، دنیا بھر میں اسلام اور پاکستان کا کیا امیج بنتا ہے اس سے قطع نظر اسلام سے متصادم بل پاس کروانا چہ معنی؟ کیا ہم نے اپنے کرنے کے سارے کام کر لیے ہیں کہ اب رب کے کاموں میں مداخلت کی جائے، فلم جوائے لینڈ اس کی ایک اور واضح مثال ہے کہ دنیاچاند سے ہوتی ہوئی خلاء تک پہنچ چکی ہے، سمندر کی تہہ میں اتر چکی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں بام عروج پر ہیں اور ہمارے پاس کرنے کو اور دنیا کو کچھ دکھانے کو صرف مرد و عورت کے غیر فطری تعلقات ہیں۔

انٹرنیشنل فلم میکرز بھی ہمیں شاید اسی قابل سمجھتے ہیں یا پھر وہ ہمیں اس سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے، ایسے جنسی موضوعات پر فلمیں بنانے کے لیے وہ بھرپور انوسٹمنٹ بھی کرتے ہیں اور پھر حوصلہ افزائی کے طور پر آسکر ایوارڈز سے بھی نواز دیتے ہیں، اور ہم اپنی صلاحیتوں کی قدر دانی میں خوش اور مطمئن بھی ہو جاتے ہیں اور “قوم کے ہیرو ” بھی بن جاتے ہیں، کیونکہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنا تو اشد ضروری ہے نا چاہے مغرب کی من پسند شرائط پر اپنے ایمان کی قربانی دے کر ہہ کیوں نہ حاصل کیا جائے۔