یقین کا بھرم

کبھی کبھی ہم سمجھ نہیں نا پاتے خالق حکیم کی حکمت کو۔ اس وقت ہمیں مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ بھی سجھائی نہیں دے رہا ہوتا اور یقین کا رشتہ بھی ہم اپنے مالک سے کمزور کرنے پر راضی نہیں ہو رہے ہوتے۔

آج اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔ آزمائش در آزمائش نے اس کی شخصیت کو مضبوطی، اعتماد اور وقار بخش دیا تھا۔ یقین وہ ڈوری تھی جس نے اس کا اللہ سے تعلق کبھی نہ ٹوٹنے دیا تھا۔ آج مگر بے چینی سی بے چینی اس کو مسلسل مضطرب کیے ہوئے تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اللہ پر توکل بھول بیٹھی تھی مگر اسے تو محنت کی کمائی کھانا ہی پسند تھا۔دوسرے سے چیز لے کر کھانے سے تو بچپن سے ہی جو کراہت اس کے ذہن میں ڈال دی گئی تھی اسی کے سبب پریشانی نے اسے گھیر رکھا تھا۔

کبھی ایسا ہوتا ہے نا کہ ہم دعاؤں کی فوری قبولیت کے متمنی ہوتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زندہ نہ رہ پائیں گے، ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ ہم کسی کے محتاج ہوں۔ اللہ کیوں ہمیں ایسی آزمائش میں ڈالتا ہے جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہوتی وہ سوچ رہی تھی مگر نہیں، اس نے لاحول پڑھا اور ذہن کو ان آلودہ سوچوں سے پاک کیا۔ اللہ تو کسی نفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر بوجھ ڈالتا ہی نہیں۔ استغفار،درود جو اسے سکھائے گئے تھے اور جنہوں نے ہمیشہ اللہ کا قرب محسوس کروایا تھا، آج بھی قرب تو محسوس کروا رہے تھے مگر خوددار طبیعت کچھ کھانے پر مائل نہ تھی۔

اللہ ہمیں کبھی ان لوگوں پر ہماری روزی کا بوجھ ڈال دیتا ہے نا جو اپنی زندگی کی گاڑی کو بھی بمشکل کھینچ رہے ہوتے ہیں، کبھی ایسے لوگوں سے سامنا کرنا پڑتا ہے جو کرید کرید کر پردہ پوشی کے بھرم کو قائم نہیں رہنے دیتے، کئی جو استہزائیہ رویہ اپنانے والے ہوتے ہیں اور کئی ایسے بھی ملتے ہیں جو استطاعت بھر دباؤ ڈالنے میں اپنا حصہ ڈالنا نہیں بھولتے۔

آج لگتا تھا کہ یقین وتوکل ہی کی آزمائش کا دن تھا۔ یہ تو قادر و حکیم جانتا ہے کہ اس کی دعائیں کب پوری ہوں گی مگر ایک بات نے اس کے مضطرب دل کو جیسے سکون بخش دیا تھا کہ ممتحن کی طرف سے دی گئی یہ آزمائش کسی ظالم کے گرد گھیرا تنگ کر دے گی، کسی ہمدرد کا اعمال نامہ نیکیوں سے بھر دے گی،استہزائیہ رویہ اختیار کرنے والوں کے نامہ اعمال کو خراب کر دے گی،دباؤ ڈالنے والوں کو بھی محاسبہ سے گزرنا پڑے گا۔ پھر، تو یہ آزمائش اس کے لئے رحمت ہی تھی نا جو اس کے گناہوں کو جھاڑ دے گی اور دوسروں کی نیکیوں سے بھی اسے حصہ ملے گا۔یہی سوچ کر اس نے ایک بار پھر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ کا ورد کیا۔ یقیناً یقین وتوکل نے آج پھر اسے آزمائش سے کامیابی سے نکلنے کا گُر سکھا دیا تھا۔