بالِ جبریل

فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہ چالاک

رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک

وہ خاک کہ ہے، جس کا جنوں صیقل ادراک

وہ خاک کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک

وہ خاک کہ پرواۓ نشیمن نہیں رکھتی

چنتی نہیں پہناۓ چمن سے خس وخاشاک

اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو

کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو عرق ناک

علامہ محمد اقبال ( بال جبریل)

پہلا شعر:                     فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہ چالاک

                                        رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک

اندیشہ چالاک:  مستقبل کی فکر ،بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ،اپنے مفاد کے بارے میں انتہائی حریص ہونا ،تخلیق آدم کے وقت شیطان کے وہ خیالات اور اندیشے جو اسے انسان سے متعلق موضوع لاحق ہونے تھے۔

طاقت پرواز:  اڑنےکی طاقت، فضا میں بلند ہونے کی صلاحیت، یہاں مراد ہے اپنے اطراف سے بلند ہو جانے کی صلاحیت ،روحانی بالیدگی اور اخلاقی طاقت حاصل کرنے کی صلاحیت۔

یہ اشعار علامہ اقبال کی کتاب بال جبرئیل سے لیے گئے ہیں اس مندرجہ بالا شعر میں اقبال انسانی فطرت کا نقشہ کھینچ رہے ہیں کہ، انسانی فطرت بنیادی طور پر سادگی اور عبودیت کی حامل ہے  یعنی انسان  بنیادی طور پر اللہ کا بندہ ہے اللہ نے اس کی فطرت میں اپنی بندگی رکھی ہے لیکن اس کے باوجود انسانی فطرت اللہ کی تخلیق کا وہ کمال ھے کہ گویا فرشتوں سے بھی زیادہ تیز اور اونچی پرواز کی حامل ہے ۔

دوسرا شعر:                  وہ خاک کہ ہے،جس کا جنوں صیقل ادراک

                                         وہ خاک کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک

خاک: چیرنا،پھاڑنا،پھٹنا

صیقل : چمکانے کو کہتے ہیں ۔

ادراک:درک کی جمع ،درک کا مطلب ہے صلاحیت ہونا مثلاً کہنے والا کسی کو کہتا ھے تمہیں اس کا ادراک نہیں ھے۔

قبا چاک : قبا لباس کو کہتے ہیں جو اوپر پہنا جاتا ہے یعنی ( چو غہ)۔

اس  میں اقبال کہہ رہے ہیں کہ جیسا کہ انسان کو خاک سے بنایا گیا ھے مگر اس کی فکر کی   صلاحیت کا یہ عالم ھے کہ اس کا جنون اس کی دیوانگی  اس کی ضد اور انا عقل و خرد کو جلا بخشنے والی ہے۔ اس خاک سے اپنی صلاحیت اور اپنی طاقت پرواز سے جبریل  کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جیسے اقبال کسی اور جگہ اس طرح کہہ رہے ہیں!

 خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات

تیسرا شعر :                 وہ خاک کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی

                                       چنتی نہیں پہنائے چمن سے خس و خاشاک

 پروائے نشیمن: اپنے انجام کی ، اپنے ٹھکانے کی فکر ۔

پہنائے چمن باغ کی وسعتیں

 خس و خاشاک: باغ میں گرے ہوئے پتے، پھول، ٹہنیاں اور ٹوٹے پودے، بیکار چیزیں

اس میں اقبال انسانی فطرت کی اس ضدیا انا کا اشارتاً کر رہے ہیں کہ انسان کی فطرت  میں یہ بات شامل ہے کہ اگر وہ کسی بات پر ضد میں آ جائے  یا اس کی انا کو ٹھیس پہنچ ج جائے تو وہ جواب میں کسی اقدام سے گریز نہیں کرتا ۔انسان کو اس حوالے سے نہ اپنے ٹھکانے یعنی نشیمن کی پرواہ ہوتی ہے نہ اپنے انجام کی۔

یہ انسانی فطرت کے اس رخ کی طرف اشارہ ہے کہ انسان بہتر سے بہتر کی فکر میں رہتا ہے وہ باغ کی وسعتوں سے لکڑیاں اور ٹہنیوں کوٹوٹے پتوں اور ٹوٹےپھولوں کونہیں چنتا بلکہ اس کی فکر اور نگاہ اعلی سے اعلی پر رہتی ہے یہی بات ہے جس کو ایک اور جگہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ،

 مسلمان کا ہر آنے والا دن اس کے گزشتہ دن سےبہتر ہوتا ہے ۔

مراد یہ ہے کہ ہر نئے دن بندہ خاکی چاہے تو فکر کی بالیدگی، روح کی طہارت  اور خدا سے  قربت کی نئی منزل طے کر سکتا ہے۔

چوتھا شعر:                    اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو

                                         کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو عرق ناک

عرق ناک:نم آ لود،گیلا کرنا

  1. یہاں آ خری شعر میں اقبال اس طاقت کا ذکر کر رہے ہیں جو دل کی رقت اور نرمی کی صورت میں اللہ تعالی نے انسان کو عطا کی ہےیہ وہی بات ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں ارشاد فرمایا کہ،

اللہ تعالی کو دوقطرے انتہائی محبوب ہیں ۔ان میں ایک خون کا قطرہ وہ قطرہ جو اللہ کی راہ میں انسان بہائےاور دوسرا وہ قطرہ آنسوجو خدا کے احساس سے انسان کی آنکھ سے نکلے۔

 اقبال  اس آ نسوکی یہ تاثیر بتا رہے ہیں کہ گویا ستاروں کی چمک اور آ ب و تاب  اسی انسانی آجاؤ کی نمی سے آ ب و تاب پاتی ہے جسے اقبال نے کہیں اور اپنے کلام میں سوز جگر کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔(علامہ اقبال۔۔بال جبریل)۔