ہماری نسلیں (حصہ اول)

سرخی مائل سا اندھیرا چاروں جانب چھایا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ پیچھے کی جانب بندھے ہوئے تھے۔ عجیب بات تھی کہ وہ ہوا میں تیر رہی تھی۔ زبان پر اللھم لبیک کی سسکتی ہوئی صدا تھی۔

”لبیک۔۔“ دور کہیں نور پھوٹ رہا تھا۔

حلیمہ گھبرائی ہوئی اٹھی۔ چاروں جانب دیکھا۔ نماز فجر قضا ہونے کو تھی۔ اس کے شوہر سو رہے تھے۔ اس نے جلدی سے نماز فجر ادا کی۔ تاسف بھری نگاہوں سے سوئے ہوئے بچوں کو دیکھا۔ ”طلحہ بارہ اور زبیر دس برس کا ہو چکا ہے انہیں باجماعت نماز پڑھنی چاہیے۔

اس نے سوچا۔ ”سب میری زمہ داری تو نہیں ان کے باپ کو بھی سوچنا چاہیے۔ جب نماز فجر خود ہی نہیں پڑھی تو ان کو کیا اٹھائیں گے۔“ اس نے کندھے اچکائے۔ معمول کے مطابق ہر کام ٹھیک ہو گیا۔ رہ گئی تو بس سب کی نماز۔ وہ اب گھر میں اکیلی تھی۔ ”کتنا عجیب خواب دیکھا تھا میں نے؟ ”اللھم لبیک! کیا میں حج کے لیے جاٶں گی؟

مگر اندھیرا کیوں تھا؟ اسے خوف محسوس ہوا۔

رات کا پچھلا پہر تھا۔ دھڑ دھڑ گھر کا دروازہ زور سے بجا۔ عہد تمیمی جو اپنے بیٹوں محمود اور حسام کے ساتھ تہجد کے نوافل پڑھنے کی تیاری کر رہی تھی گھبرا کر صحن میں آئی۔ صحن میں پڑی چیزوں کو ٹھوکریں مارتے وہ وہاں موجود تھے۔ ” یہ ہے وہ گرفتار کرو اسے اس نے فوج پر پتھراٶ کیا تھا ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر تیرہ سالہ محمود کو کھینچا۔“ دس سالہ حسام تڑپ کر رہ گیا تھا۔

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کا نظام ہے۔ غرب اردن کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوجی قبضے کی بدولت فلسطینی بچوں پر اسرائیلی فوج کا فوجداری نظام لاگو کیا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوج ہر سال سیکڑوں فلسطینی بچوں کو گرفتار کر لیتی ہے جن میں سے اکثریت کی عمریں 12 برس کے لگ بھگ ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ گرفتار کیے جانے والے بچے ان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔

سیکڑوں 18 سال سے کم عمر بچے اس وقت اسرائیلی قید میں ہیں۔

یو ٹیوب سکرول کرتے ہوئے فلسطین سے متعلق ایک شارٹ کلپ دیکھتے ہوئے اس نے سوچا ”آخر یہ فلسطین کا مسئلہ حل کیوں نہیں ہو جاتا؟“

اور سکرول کیا تو

will you dance for pepsi

پر پاکستانی مسلمان بچے

why not meri jan

کہتے جسمانی اور ایمانی طاقتیں

pepsi(pay every pani to save israel)

پر نچھاور کر رہے تھے۔

”عھد تمیمی حسام کے ساتھ سڑک کے کنارے متانت سے چل رہی تھی۔ ” کتنی دیر لگے گی وہاں تک پہنچنے میں؟“ حسام نے ماں کی جانب دیکھا۔

جتنی دیر میں آپ ایک مرتبہ سورہ کہف کی تلاوت کر لیں گے۔“ عھد مسکرائی۔

حسام بھی مسکرانا چاہتا تھا مگر اس کا دل بابا اور محمود بھائی کے لیے اداس تھا۔

حسام تلاوت کرو۔ عھد نے حسام کی کمر تھپکی۔

حلیمہ فون چھوڑ کر کتابوں کی الماری درست کرنے لگی تھی۔ کتابیں ترتیب دیتے ہوئے ایک کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی اس کا دل زور سے دھڑکا۔ ٠ خواب میں جہاں نور دکھائی دیا تھا وہ یہی گنبد تھا۔ وہ بے چین ہوئی۔

”مسجد اقصی۔۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ“ تو یہ مسجد اقصیٰ کا گنبد ہے۔ خواب میں میں نے مسجد اقصیٰ کی جانب سفر کیا ہے کیا؟ لیکن اندھیرا آنکھوں پہ پٹی بندھے ہاتھ۔“ اسے اضطراب نے گھیر لیا۔ وہ کتاب لے کر صوفے پر آن بیٹھی۔

زمانہ قدیم میں جس علاقے کو ’’شام‘‘ کہاجاتا تھا، وہ لبنان، فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا، احادیث میں جس کی فضیلت ذکر فرمائی گئی ہے، اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء کرام کومبعوث فرمایاگیا، نیزدیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرماکر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا، جن میں سے چند یہ ہیں:

سیدناابراھیم، سیدنااسحاق، سیدنایعقوب، سیدنا یوشع، سیدنا موسیٰ نے تو اس سرزمین(بیت المقدس)پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی۔(صحیح بخاری:۱۳۳۹) سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان، سیدنازکریا، سیدنالوط، سیدنا یحیٰ، سیدناعیسیٰ، یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ کے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا اور ان کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔ محمدرسول اللہ ﷺ کی پیدائش اور بعثت اگرچہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپﷺ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجداقصیٰ (بیت المقدس) کی سیر کرائی گئی جہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) سے ہی ہوئی۔

فلسطین انبیاء کی سرزمین، بابرکت سرزمین اس کا دل فلسطین سے عقیدت اور محبت کی لہروں پر ڈولنے لگا تھا۔                  حلیمہ، طلحہ، زبیر۔۔۔۔۔۔ اسے اور بچوں کو کسی نے آواز دی تھی۔ وہ کتاب وہیں صوفے پر چھوڑ کر باہر آ گئی۔  (جاری ہے)