موجودہ جمہوری پاکستان

پاکستان کی موجودہ سیاسی و جمہوری انداز فکرکا اگر بنظر عمیق مشاہدہ ومطالعہ کیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ حالیہ جمہوریت میں جمہور مسلسل چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔1962 کے آئین میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مکمل نام نہ لکھنے کی وجہ سے آئین میں پہلی ترمیم بوجوہ عوامی ہڑتال صدر ایوب خان کو کرنا پڑی۔حالانکہ ان دنوں ملک پر سول نہیں بلکہ فوجی حکومت قائم تھی۔اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ اس مارشل لاء سے قبل بھی کوئی باقاعدہ جمہوری انداز سیاست یا حکومت کی پاسداری نہیں رہی۔سمجھ سے بالاتر بات تھی کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے دس سال بعد تک کے زمانے کو جمہوری کہا جائے،ٹیکنو کریٹ انداز حکمرانی کہا جائے یا جمہوری انتشار سمجھا جائے۔میری نظر میں وہ دہائی ماسوا سیاسی انتار کے اور کچھ بھی نہیں۔جس کی سادہ سی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کے ٹھیکیدار افواج پاکستان کو خود دعوت دے رہے ہیں کہ ملک میں مارشل لا لگائیں اور عوام پر حکمرانی فرمائیں۔

ایسا سیاسی نظام کا ہونا اور جمہوریت کی پامالی کوئی آخری بار نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ پل دو پل کا قصہ لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صدیوں تک چلنے والا ہے۔وجہ اس کی ہمارے سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویے،اخلاص کا فقدان،شاہانہ زندگی،عوام پر بے جا ٹیکسز کا بوجھ اور ان کے اللّے تللّے جب تک ختم نہیں ہو جاتے پاکستان کے حالات کا ٹھیک ہو جانا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ملک میں پہلا مارشل لا صدر ایوب خان نے لگایا تو انہوں کے خالصتا فوجی حکومت قائم نہیں کی بلکہ سول سے بہت سے سیاستدانوں کو اپنی حکومت میں شامل محض اس لئے کر لیا کہ انہیں کسی بھی سیاسی محاذ سے مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔سب سے بڑی مثال کتب التواریخ میں ذوالفقار علی بھٹو اوردور ضیا میں میاں نواز شریف کی دی جاتی ہے۔خیر اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ یہی ہمارے ساستدان افواج پاکستان کو سیاست میں شامل کرنے کے لئے بیساکھیاں بنتے ہیں اور پھر دس بارہ سال مل جل کر وہ جمہوریت کا وہ حشر کرتے ہیں جو رضیہ کا غنڈوں نے کیا تھا۔

چلئے کچھ دیر کے لئے اپنے سیاسی ماضی سے جشم پوشی کر لیتے ہیں اور اپنے موجودہ معاشی ،معاشرتی و سیاسی حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یقین جانئے مجھے بطور ایک تاریخ کے طالب علم رتی بھر فرق نظر نہیں آتا۔جو حالات میں نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھے انہیں اب اپنی نظرو ں سے دیکھ بھی رہا ہوں۔بلکہ میں تو یہ بھی دیکھتا ہوں کہ موجودہ ففتھ جنریشن نے تو تمام اداروں کو ایسے برہنہ کردیا جیسے درباروں میں ننگے ملنگ گھومتے پھرتے ہوں۔سوشل میڈیا نے تو کیسے کیسے سیاسی برج اور دیگر اداروں کی ایسی تیسی پھیری ہے کہ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے ایک مخصوص طبقہ ہے جو جمہوری اداروں کی بحالی،آئین کی پاسداری اور عوامی خدمت کا نام لے کر اپنی ہی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ لوگ کیا سوچیں گے انہیں اگر غرض ہے تو عوام کی سوچ کو کچلنے کی ہےکہ مبادا انہیں کہیں عوامی و سیاسی شعور نہ آجائے،اور ہم بھی برہنہ کی لسٹ میں شمار نہ کر لئے جائیں،وگرنہ کیا ضرورت تھی ایک گرنے والی حکومت کو گرا کر خود کی حکومت بنانے کی۔چلئے بنا لی ،ان کا سیاسی و آئینی حق ہے لیکن اس حق میں جو غربا کا حق پامال ہوا اس کی کسی کو فکر ہے کہ نہیں۔

صد افسوس کہ ان سیاستدانوں کو فکر دامن گیر ہوتی تو ہے مگر اپنے اپنی آل اولاد کی نا کہ عوام الناس کی۔جبکہ حلف اٹھاتے ہوئے،آئین کی پاسداری میں پارلیمنٹ میں دھواں دھار تقاریر کرتے ہوئے جس جمہوری اقدارو عوام کی فلاح کی قسمیں اٹھاتے ہیں عمل اقدام اٹھاتے ہوئے انہیں کیوں مجبوریوں کی چکی میں پیس کے رکھ دیتے ہیں۔ایک سادہ سی مثال پیش کرتا ہوں،موجودہ جمہوریت کی دعویدار حکومت عدم اعتماد کرتے ہوئے یہ دعوے فرماتی تھی کہ ہم سے عوام کی حالت دیکھی نہیں جاتی،ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا،ہم عالمی دنیا میں تنہا رہ جائیں گے۔ہم سیاست نہیں ریاست بچانے آئے ہیں،میں یہ کیسے مان جائوں جبکہ پوری کی پوری پارلیمنٹ کسی نا کسی عہدے پر فائز ہے،کوئی وزیر ہے تو کوئی وزیر کا مشیر،کوئی قائمہ کمیٹی کا چئیرمین ہے تو کوئی کمیٹی کا ممبر،اور تو اور اتنے کام ہمارا وزیر اعظم کر نہیں رہا جتنے مشیر ارد گرد جمع کر رکھے ہیں۔چلئے کوئی بات نہیں ملک کا نظام چلانے کے لئے یہ سب ضروری ہے،انتظامی امور ان کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے لیکن کیا کوئی حلفا ّ یہ گارنٹی دے سکتا ہے کہ یہ سب کے سب بلکہ فوج ظفر موج سرکار کا نہیں اپنی جیب سے کھاتے ہیں۔جب ان کا کیا ان کی آل اولاد کا خرچ بھی سرکار ہی نے اٹھانا ہے تو پھر خدا کے لئے عوام کو یہ کہہ کر مت بے وقوف بنائیں کہ ہم عوام اور پاکستان کو بچانے آئے ہیں۔بلکہ عوام آپ کو بچانے اور پالنے آئے ہیں۔

ایک ذی فہم پاکستانی اپنے اردگرد ایسے جمہوری رویوں اور پاکستان کے نام نہاد جمہوری اداروں کو دیکھتا ہے تو ضرور سوچتا ہے کہ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب قائد و اقبال نے دیکھا تھا۔کیا یہ وہ جمہوری ادارے ہیں جن کی مدد سے قائد اعظم پاکستان کو فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے۔کیا یہ وہ جمہوری سیاستدان ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کرنا تھا۔میں تو یہ سب سمجھنے سے قاصر ہوں ،البتہ آپ سمجھ جائیں تو مجھے ضرور بتائیے گا۔کہ موجودہ جمہوری پاکستان کس کا ہے اور اسے یہاں تک پہچانے میں کن عوامل کا ہاتھ ہے؟

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔