بارات نہیں صرف ولیمہ

اسدکی شادی ہوگئی ! اور ہم نے ان سے اپنے تعلقات ختم کرلیے ہیں، ماشاءاللہ، مگرہم نے تعلقات کیوں ختم کرلیے ہیں، ابا جی نے فون پر بات کرتے ہوئے مجھے بتایا تو میں نے سارے سوالات ایک ساتھ ہی کرلیے، کیونکہ اسد میرا کزن اور چچازاد بھائی تھا، دہری رشتہ داری کے باوجود ابا جی  کا ایک دم سے تعلق ختم کرنا میرے لیےاچھنبے کی بات تھی، وہ اس لیے کہ انہوں نے ہمیں بارات میں نہیں بلایا اور چار آدمی جاکر نکاح کرآئے، ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ ہمیں بارات میں لےکر جاتے، اباجی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔

ابا جی انہوں نے بارات نہ لے جاکر عاشق رسولﷺ ہونے ثبوت دیا ہے، کیونکہ ہمارے دین میں بارات کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ سراسر ایک ہندوانہ رسم ہے کہ لاو لشکر کے ساتھ لڑکی  والوں کے گھر والوں پر دھاوا بول دو، کھاؤ پیو، جہیز کا ٹرک وصول کرو اور ناچتے گاتے ایسے واپس آؤ جیسے کشمیر فتح کرکے آئے ہو۔ آپکی ناراضی بجا ہوتی اگر وہ ہمیں ولیمہ میں نہ بلاتے کیونکہ اسلام  میں ولیمہ کا حکم ہے اور اسقدر سختی سے حکم ہے کہ ولیمہ کرو چاہے تمھارے پاس ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔

یہ صورت حال کم و بیش ہر خاندان کی کہانی ہے، ہمارے ہاں بارات کا تصور اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ اس کے بغیر شادی کاتصور ہی نہیں ہے، حالانکہ بارات اور جہیز خالص ہندوانہ رسم ہے، اہل علم کا یہ ماننا ہے کہ (مستند روایت  کے مطابق ) رام کی بیوی سیتا کو جہیز میں سونا، چاندی، ہاتھی، گھوڑے، جائیدادیں اور اس کے ساتھ ساتھ دلت غلاموں کا ایک جتھا دیا گیا، دوسری مثال لارڈ شیوا کی ہے جس کی بارات میں سارے بھگوان، اور اس زمین پر موجود تمام انسان، شیر، ہاتھی، گھوڑے بھی بارات میں شامل تھے،  ہندو مذہب کے مطابق یہ بارات کی ابتدا تھی، اور ان کے ہاں بارات کو ایسا درجہ حاصل ہے جیسا ہمارے ہاں سنت کا۔

اسلام میں بارات کا تصور ہی نہیں ہے، ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ عربی زبان میں بارات کا لفظ  نہیں ہے یہ عجمی لفظ ہے، کچھ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ بارات یونانی لفظ ہے۔ بہرحال اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ بارات کی رسم ہندوازم سے لی گئی ہے کیونکہ ہندو ازم میں بیٹی کے لیے وراثت کے نظام میں بالکل حصہ نہیں ہے۔ باپ کی وراثت میں بیٹی کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔ اسی لیے شادی میں ہی سب کچھ دے دیا جاتا ہے، ہندو لڑکی کورخصت کرتے وقت سب کچھ دے دیتے ہیں، حتی کہ اسے والد کی جائیداد سے ملنے والا  حصہ بھی دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ باپ کے مرنے کے بعد دوبارہ واپس لوٹ کر نہ آئے۔ جبکہ اسلام لڑکی کو وراثت میں حصہ دیتا ہے۔

 اس لیے ہمارے ہاں بارات کا تصور نہیں ہے۔ اسلام میں بیٹی کو باپ اور والدہ کی جائیداد میں بیٹوں کے مقابلے میں نصف جائیدا دکاوارث بنایاگیاہے۔ علماء کہ یہ ماننا ہےکہ تاجدار مدینہ، راحت و قلب سینہ حضرت محمد ﷺ نے اعلان نبوت سے پہلے اور بعد میں اپنی کسی بیٹی کوجہیز نہیں دیا، بعض لوگ حضرت محمد ﷺ کی جانب سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شادی کے موقع پردی گئی تین چار چیزوں کو جہیز کے جواز کے طور پرپیش کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں، اور بعض جگہوں پر لڑکیوں کے والدین کوجہیز کے نام پر لوٹ بھی لیا جاتا ہے، جیسے ماموں کانجن  کے ایک گاؤں میں شادی کے روز دلہا پراسرار طورپر غائب ہوگیا۔ جب تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم پڑا کہ دلہن کے والدین نے  دلہے کو کم و بیش پانچ لاکھ روپے پیشگی اداکئے تھے۔ دلہا میاں وہ رقم کسی ایجنٹ کو دے کر خلیجی ملک رفو چکر ہوگئے اورادھردلہن انتظار کرتی رہی۔ ایک طرف ایسے واقعات ہورہے ہیں دوسری طرف یوں بھی ہورہا ہے۔  جیسے فیصل آباد میں چنیوٹ سے بارات آئی تو دلہن کے گھر پرتالہ پڑا ہواتھا۔ جب تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم پڑا کہ لڑکی والوں نے جہیز کیلئے لڑکے سے اڑھائی لاکھ روپے لئے تھےاور پھر وہ نودو گیارہ ہوگئے۔ مندرجہ بالا واقعات صرف نمونے کے طور پر پیش کئے ہیں، حقیقت اس قدر زیادہ ہے کہ جگہ کم پڑجائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں اور معاشرے سے بارات اور جہیز کو ختم کرتے ہوئے صرف ولیمہ کو عام کریں، نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بنادیں، اسی میں ہماری بقا ہے، یہی دین کاپیغام ہے کہ اپنی زندگی مدینے والے طریقوں سے مزیّن کردیں۔

حصہ
mm
بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے ساتھ ، کمپیوٹر سائنسز ،ای ایچ ایس سرٹیفیکٹس  اور سیفٹی آفیسر  ڈپلومہ ہولڈر ہیں۔فی الوقت ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں۔علاہ ازیں بائی نیچر صحافی ہیں۔