عالمی فوڈ سیکیورٹی میں چین کی نمایاں شراکت

چین کا شمار دنیا کے بڑے زرعی ممالک میں کیا جاتا ہے جو زراعت کے وسائل سے مالا مال ہیں اور جہاں جدت کی بدولت زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں حد تک خودکفالت کی منزل حاصل کر لی گئی۔اس کی اہم وجہ ملک بھر میں فصلوں کی بہتر پیداوار کے لیے جدید زرعی مشینری کا استعمال اورکاشتکاروں کی خوشحالی اور دیہی حیات کاری جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اسی طرح ملک میں زرعی سائنسدانوں اور کسانوں کی بھی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی اختراعی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کریں اور زرعی شعبے کو ترقی دیں۔تاہم چین کے حوالے سے اکثر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ 1.4 بلین آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر، چین کیسے دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا میں مجموعی قابل کاشت اراضی کے محض 9 فیصد سے چین دنیا کی ایک چوتھائی خوراک کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ اس کی کلید چینی حکومت کی جانب سے زرعی جدت کاری کے فعال فروغ اور اناج کی پیداواری صلاحیت میں مستقل بہتری میں مضمر ہے۔

عالمی غذائی تحفظ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے چین نے مسلسل مشکلات پر قابو پایا ہے اور انتہائی ضرورت مند ممالک کو ہنگامی غذائی امداد بھی فراہم کی ہے۔ چین نے 140 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ زرعی تعاون کیا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں ایک ہزار سے زائد زرعی ٹیکنالوجیز کو مقبول طور پر قابلِ استعمال بنایا ہے۔چین نے فوڈ سیکورٹی کا بخوبی ادراک کرتے ہوئے اسے عالمی ترقیاتی اقدامات میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی، بین الاقوامی فوڈ سیکورٹی تعاون کے اقدامات کو آگے بڑھایا، خوراک کے زیاں میں کمی کے تناظر میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا ہے اور تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ خوراک کی تجارت کو کھلا رکھیں اور بین الاقوامی فوڈ انڈسٹری چین اور سپلائی چین کو ہموار کریں۔یہ چین کا ہی خاصہ ہے کہ وہ فوڈ سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے اور مزید منصفانہ اور معقول عالمی فوڈ سیکیورٹی گورننس سسٹم کو فروغ دینے کے لئے عالمی قوتوں کو یکجا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ بھوک سے پاک ایک ہم نصیب عالمی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

چین کی اعلیٰ قیادت کے نزدیک بھی غذائی تحفظ بنیادی قومی مفادات میں شامل ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ کی ہی بات کی جائے تو انہوں نے متعدد مواقع پر لوگوں کے لیے مناسب خوراک کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔انہوں نے ہمیشہ یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ غذائی تحفظ کے حوالے سے چوکس رہا جائے، اور ملکی سطح پر اناج کی پیداوار، وافر پیداواری صلاحیت، معتدل خوراک کی درآمدات، اور تکنیکی مدد پر مبنی خود کفالت کے اصول پر عمل پیرا رہا جائے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے قومی اقتصادی اور سماجی ترقی اور سال 2035 تک کے طویل المیعاد مقاصد کے لیے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ (2021تا2025) کے خاکے میں غذائی تحفظ کی حکمت عملی کے نفاذ کو شامل کیا ہے۔اس خاکے میں اناج کے مکمل تحفظ اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور غذائی تحفظ سے متعلق قانون سازی کو فروغ دینے کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ملک نے 2021 میں خوراک کے زیاں کے خلاف قانون بھی منظور کیا، جس کا مقصد ایک طویل مدتی فریم ورک کی تشکیل ہے، جو قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔چینی کسانوں اور زرعی ماہرین کی کوششوں کی بدولت ملک میں زرعی پیداوار کی مشینی، انٹیلی جنٹ اور سبز ترقی کو تیز رفتاری سے فروغ دیتے ہوئے غذائی تحفظ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کی زرعی اور دیہی ترقی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین میں اناج کی پیداوار نے مسلسل 18 سالوں سے زرعی مشینری و آلات اور زرعی میکانائزیشن کی بھرپور مدد سے بمپر فصلیں حاصل کی ہیں جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے۔چین کی زرعی جدت کاری کی کوششیں جہاں ملک میں چینی عوام کی خوراک کی ضروریات کو احسن انداز سے پورا کر رہی ہیں وہاں عالمی سطح پر بھی فوڈ سیکیورٹی میں نمایاں مدد مل رہی ہے جو دنیا سے بھوک کے خاتمے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کی تکمیل میں ایک نمایاں خدمت ہے۔